مرزا صاحب… ہم صرف حیات و ممات مسیح میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔
مولوی صاحب… اس مسئلہ حیات و ممات میں بھی اور آپ کے کل عقائد کا ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کیوں ایک مسئلہ کا فیصلہ کریں۔ جب آپ کے بہت سے عقائد خلاف اہل اسلام ہیں۔ اور بڑا دعویٰ تو آپ کو مسیحائی کا ہے آپ اس کا کچھ ثبوت دے سکتے ہیں یا نہیں۔
صاحب بہادر… و دیگر رئوساء بے شک ایسا ہی ہونا چاہیے۔
مرزا صاحب… (وہی معمولی جواب) نہیں ہم تو حیات وفات مسیح میں بحث کریں گے۔
مولوی صاحب… پبلک کی رائے پر آپ کیوں نہیں فیصلہ کرتے۔
حوارئین… پبلک آپ کے ساتھ ہے۔
صاحب بہادر… آپ مسیح موعود ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو ثبوت پیش کریں فرض کریں کہ مسیح مر گئے۔ تو اس حالت میں سب لوگ برابر ہیں آپ کو کیا زیادہ حق ہے کہ آپ کو مسیح سمجھا جائے بہر صورت آپ کو اپنے دعوے کا ثبوت دینا ضروری ہے۔
مرزا صاحب… خاموش جو اب ندارد۔ یہ چپ ہوا ہے گویا نہیں زبان منہ میں۔
مولوی صاحب… (بلند آواز سے صاحبو خاموش) ہم ہر مسئلہ میں گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ آپ کے پاس اگر کوئی شرعی برہان ہے تو لائیے (بہت بلند آواز سے ھا توا برھان کم ان کنتم صادقین۔
غلام قادر صاحب حواری… (صاحب سپرنٹنڈنٹ سے) دیکھیے صاحب یہ لوگوں کو سناتے ہیں۔
صاحب بہادر… کیوں نہ سنائیں۔
خواجہ محمد یوسف… (وکیل علی گڑھ منجانب مرزا صاحب مولوی صاحب سے) حضرت ایک شخص مسلمان ہوتا ہے۔ کیوں اسے مسلمان نہیں کرتے۔
مولوی صاحب… اگر توبہ کرے ہمارا بھائی ہے۔
خواجہ صاحب… میں ابھی ان سے توبہ نامہ لکھوائے لیتا ہوں۔ وہ لکھ دیں گے کہ جو کچھ قرآن و حدیث کے خلاف میں نے لکھا ہے وہ مردود ہے اور میں مسلمان ہوں۔
مولوی صاحب… اگر وہ بغیر کسی مغالطہ کے ایسا لکھیں تو ہم ابھی منظور کرتے ہیں۔مرزا صاحب… توبہ نامہ لکھنے لگے مگر ویسا ہی لکھا جیسا کہ ۱۲؍اکتوبر۱۸۹۱ء کے اشتہار میں شائع کرچکے ہیں۔
مولوی صاحب یہ تو مرزا صاحب پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ لکھنا تو یہ چاہیے کہ جو عقائد خلاف اہل اسلام میں فی فتح الاسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں لکھے ہیں۔ ان سے توبہ کرتا ہوں۔