تھے۔ ابھی نظارہ زیارت سے سیر نہ ہوئے تھے کہ گھڑی نے تین بجائے ابھی چار نہیں بجے تھے کہ مؤذن نے صدائے اللہ اکبر بلند کی اور ایک طرف آدمیوں میں ہل چل پیدا ہوئی۔ آدمیوں کو چیر کر راستہ کیا گیا حضرت مولانا استاد و عرب و عجم شمس العلماء و فضلاء عمائد شہر و امرا و انصار پیشتر ہی موجود تھے مولانا صاحب کا تشریف لانا تھا کہ اقامت کہی گئی جماعت کے ساتھ چار ہزار آدمیوں نے نماز عصر ادا کی مگر حضرت مسیح زمان معہ حواریان امام کے آگے بیٹھے رہے۱؎ بعض مسلمین نے ان حضرات کو شرکت جماعت کے لیے کہا مگر یہ سب کے سب اسی طرح بیٹھے رہے بعد ادائے نماز عصر جناب مولوی عبد المجید صاحب و سید بشیر حسین صاحب انسپکٹر پولیس و نواب سعید الدین احمد خان صاحب بہادر منجانب مولانا صاحب (حضرت شیخ الکل) مرزا صاحب کے پاس گئے۔
انسپکٹر صاحب… حسب قرار داد مولانا صاحب آپ لکھ دیں اگر جناب مولانا صاحب نے میرے دلائل بحلف رد کردیے تو میں توبہ اسی مجمع میں کروں گا۔
مرزا صاحب… خاموش۔
حوارئین… (گھبرا کر اور کھڑے ہو کر) ایک سال کے بعد توبہ کریں گے۔ مگر اس میں یہ شرط ہے کہ اگر جناب مرزا صاحب کی بد دعا کا اثر نہ ہوا۔
حاضرین جلسہ… (چند آوازیں) یعنی اگر ایک سال کے اندر مولانا صاحب
کو نصیب دشمنان بخار آگیا یا درد سر ہوگیا تو توبہ نہیں کریں گے۔
ظریف… چلو نومبر کے مہینے میں تبدیل موسم کی وجہ سے نزلہ و زکام تو ایک طبعی امر ہے اور اس پیرانہ سالی سوا سو برس کی عمر میں تو لابدی۔
پیران نمے پرند مریدان مے پرانند
صاحب سٹی سپریڈنٹ ہنس کر یہ تو کوئی کام کی بات نہیں آپ کی اس بات کو تو کوئی بھی منظور کرسکتا۔مولوی عبد المجید صاحب… صاحب ہم آپ کو ثالث مقرر کرتے ہیں آپ ان سے دریافت کریں کہ بموجب تحریر مولانا صاحب آپ اپنے عقائد کا ثبوت بیان کرسکتے ہیں اور در صورت عدم تسلیم مولانا صاحب کی قسم اور حلف پر اس وقت توبہ کریں گے یا نہیں۔ ہم بات بڑھاتے نہیں۔ چاہیے نہ وقت ٹالنا۔
صاحب بہادر… (مرزا صاحب اور ان کے اعوان سے) تم لوگ کیوں بات بڑھاتے ہو۔ ایک بات مختصر کہو کہ ہم کو یہ بات منظور ہے کہ نہیں۔