ہے۔ آپ دوبارہ گفتگو کے لیے تکلیف دیں بلکہ آئندہ آپ کسی قسم کی خط و کتابت سے مولانا صاحب سے نہ کریں جو کہنا اور لکھنا ہو ہم سے کہیں اور ہم کو لکھیں۔ آپ نے اپنے خط کے اخیر میں ایک نئی شرط اور بڑھائی ہے اس کا اور دیگر شرائط ضروریہ کا تصفیہ پبلک کی رائے سے ہوگا۔ ان شروط کو جلسہ میں پیش کیا جائے گا۔ جس امر پر کثرت رائے ہوئی اس کو ماننا پڑے گا بذریعہ تحریر ان شروط کا تصفیہ ناممکن ہے۔ والسلام عبد المجید ۱۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
(مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کی جانب سے) ’’خاکسار کا بھی اس جواب پر صاد ہے۔ اور اس پر یہ مستزاد ہے کہ آن قطرہ بہ ایران رسید۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اب ہزاروں دعویٰ کریں اور بیسوں خط لکھیں وہ الزام گریز آپ سے اٹھ نہیں سکتا لہٰذا ۱… کہئے جناب آج مناظرہ ہوگا قبلہ۔
مولوی صاحب… بھائی صاحب نہیں۔ خود انتظار میں ہوں ابھی تک کوئی خبر نہیں نکلی۔
۲… حضرت مولانا صاحب… فرمائیے کیا بات قرار پائی وقت اور مکان مناظرہ کے لیے کون مقرر ہوا؟
مولوی صاحب… ابھی تک مرزا صاحب کی طرف سے کوئی خبر یا اطلاع نہیں آئی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
مولوی صاحب لوگوں کے سوال و جواب سے تنگ آ کر ۱۰ بجے کے قریب لوگوں کے ساتھ اٹھ کر مطبع فاروقی میں گئے اور بہ معیت میاں محمد صاحب مہتمم مطبع مذکور نے مرزا صاحب کو رقعہ بھیجا۔
رقعہ
بخدمت گرامی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی دام لطفہ
بعد سلام کو سنت اسلام ہے کہ واضح رائے عالی ہو احقر حاضری سے تو بسبب کوتوالی کے پہرہ کے جو جناب نے اپنے مکان پر لگا رکھا ہے۔ معذور ہے ۱۸؍اکتوبر یوم شنبہ کو آپ نے لکھا تھا کہ مکان اور انتظام کرکے گفتگو کروں گا۔ صبح سے انتظار ہے۔ کہ اگر آج بھی کوئی سبب خاص مانع