میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں۔ اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء سے یہ سمجھا گیا تھا کہ فی الحقیقت آپ کو تحقیق مسئلہ منظور ہے۔ بنابرآن ۲؍اکتوبر سے ۱۱ تک کوئی دقیقہ اتمام حجت کا ایسا نہیں چھوڑا جو اب باقی ہو اب سوائے افسوس اور دعائے خیر کے اور کوئی بات آپ کے حق میں کرنی باقی نہیں ہے۔ اس عرصہ میں جو جو نیرنگیاں خلاف حق و انصاف آپ سے ظہور میں آئیں وہ ظاہر ہیں۔ کہ آپ کو مجادلہ و مقابلہ و شہرت کے سوائے احقاق حق سے کچھ سروکار نہیں۔ کیوں جناب دوسری اکتوبر کے اشتہار میں آپ نے یہ وعدہ نہیں لکھا تھا۔ کہ اگر وہ شرائط مذکورہ بالا منظور کرکے مجھے طلب کریں تو جس جگہ چاہیں میں حاضر ہو جائوں گا۔ اس بات کو سچ اور طالب حق جان کر بعد قبول شرائط مقررہ آپ کی بدست چھ اشخاص معززین و معتبرین ایک خط جناب میاں صاحب نے آپ کے پاس بھیجا جس سے کامل امید تھی کہ بعد معائنہ اس خط کے کوئی عذر نہ کریں گے مگر آپ نے ترمیم شرط اول کا حیلہ کرکے انکار کر دیا پھر چند حاملیں رقعہ جناب نواب سعید الدین احمد خان صاحب و جناب حکیم عبد المجید خان صاحب وغیرہم نے کہا کہ ہم ہر طرح ذمہ داری کی تحریر آپ کو دیتے ہیں۔ مگر آپ نے ہرگز نہ مانا جس سے مایوس ہوئے اور معلوم ہوا کہ جناب کا مقصود احقاق حق نہیں ہے اس کے بعد آپ نے ۶تاریخ کا اشتہار ۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو پھر مشتہر کیا اور ان میں جناب میاں صاحب کے خط اور حاملین رقعہ کی گفتگو اور اپنے انکار کا بالکل ذکر نہیں کیا (جو دیانت اور انصاف سے مراحل دور ہے) اور اس اشتہار میں چند باتیں اور بڑھا دیں۔
۱… مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب مجھ کو بوجہ اعتقاد وفات مسیح ابن مریم ملحد اور اپنے بھائی حنفیوں کو بدعتی اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کو علم حدیث سے بے خبر قرار دیتے ہیں۔ و ہذا بہتان العظیم!
۲… مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب کی گفتگو سے اعراض۔
۳… افسر انگریزی کی عدم موجودگی کے جلسہ میں بحث منظور ہے۔
۴… مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے درخواست مناظرہ۔
۵… درخواست شیوع حلفی اشتہار۔
۶… ہدایت پر تواضع و عاجزی و انکسار۔
۷… حضرت میاں صاحب کی مسجد میں حاضری کا اقرار۔
اگرچہ بعد معائنہ اس اشتہار کے آپ کے حال وقال پر زیادہ واقفیت ہوگئی تھی مگر