۷… ’’ جبرائیل علیہ السلام جو انبیاء کو دکھائی دیتا ہے۔ وہ بذات خود زمین پر نہیں اترتا اور اپنے ہیڈ کوارٹر (یعنی صدر مقام) نہایت روشن تیز سے جدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی تاثیر نازل ہوتی ہے اور اس کے عکس سے ان کی تصویر ان کے دل میں (یعنی انبیا) کے منقوش ہو جاتی ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۶۸،۷۰، خزائن ج۳ ص۸۶،۸۷ ملخص)
۸… ’’ آیت متضمن ذکر سجدہ آدم میں آدم کی طرف سجدہ کرنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ ملائک کا انسان کامل کے خدمت بجا لانا اور اس کی اطاعت کرنا مراد ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۴۹، خزائن ج۳ ص۷۶ ملخص) یعنی سجدہ حضرت آدم کی کچھ خصوصیت نہیں ہے بلکہ مرزا صاحب بھی مسجود و مخدوم ملائک ہیں۔
۹… ’’ لیلۃ القدر سے رات مراد نہیں ہے بلکہ وہ زمانہ مراد ہے جو بوجہ ظلمت رات کے ہمرنگ ہے اور وہ بھی یا اس کے قائم مقام مجدد کے گزر جانے سے ہزار مہینے کے بعد آتا ہے۔‘‘
(فتح الاسلام ص۵۴، خزائن ج۳ ص۳۲ ملخص)
۱۰… ’’ پیشگوئیوں کے سمجھنے کے بارہ میں انبیاء سے بھی امکان غلطی ہے۔ تو پھر امت کا کوارانہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے۔‘‘ (اقوال الفصیح ص۱۳)
اب ذرا غور و انصاف کریں کہ اہل اسلام کے بھی اعتقاد ہیں۔ جو مرزا صاحب نے لکھے ہیں۔ اور انہیں اعتقادوں کے ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھیجا ہے یہ بھی الہام مرزا صاحب کو ہو رہا ہے۔ یہ تو ملحدوں کی پرانی گھڑت ہے جیسا کہ مرزا صاحب کی قلم سے نکلیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں جس کو الہام کہا جائے۔ کوئی الحادی بھی ہوتی مگر نئی ہوتی تو بھی الہام کا شبہ ہوسکتا تھا۔ فالہمھا فجورھا مگر ان سڑی بھنی گھڑتوں کو کون دل کا اندھا کہے گا۔ مدت ہوئی۔ کہ علماء اہل اسلام اس کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔ مگر الحمد للہ اس وقت آپ لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ مرزا صاحب پر الزام نہیں لگایا گیا ہے۔ بلکہ جو اعتقاد انہوں نے لکھے ہیں یہ ان کا اظہار کیا گیا ہے۔
تقریر ختم ہوئی اور حاضرین جلسہ سے خصوصی علمائے دین جو اس جلسہ میں شامل تھے رائے لی گئی۔
کل علماء دین کے بالاتفاق مرزا صاحب کے الحاد اور تکفیر پر اپنی رائے ظاہر کی اور فتویٰ تحریر ہوا علماء کے دستخط اور مواہیر ثبت کرائی گئیں جلسہ برخاست ہوا۔