مرزا صاحب کا رقعہ جلسہ میں پڑھا گیا سن کر سب خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر سناٹے کا عالم رہا۔
مولوی عبد المجید صاحب… آپ صاحبوں کو معلوم ہوگیا۔ کہ مرزا صاحب کو مناظرہ سے گریز ہے اور اس مجلس میں وہ ہرگز آنا نہیں چاہتے اور نہ مباحثہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اب پورے طور سے نا امیدی ہوگئی۔ کہ مرزا صاحب نہ خود تشریف لائیں گے۔ اور نا مباحثہ کریں گے اس واسطے ان کے عقائد ان کی تصانیف میں ہیں ان ہی کے الفاظ میں حاضرین جلسہ کے روبروئے پیش کرتا ہوں۔
۱… ’’ مطلق نبوت ختم نہیں ہوئی نہ من کل الوجوہ باب نبوت مسدود ہوا ہے اور ہر ایک طور سے وحی پر مہر لگائی گئی ہے۔ بلکہ جزی طور پر وحی اور نبوت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔‘‘
(توضیح المرام ص۱۸،۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰)
۲… ’’خاکسار محدث ہے المحدث نبی یعنی محدث بھی نبی ہوتا ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۱۸، خزائن ج۳ ص۶۰)
۳… ’’ کسی بشر کا (آنحضرت ہوں یا مسیح) آسمان پر چڑھنا اور اترنا سنت اللہ اور فطرت (یعنی قانون قدرت) کے خلاف ہے اور خدا تعالیٰ کا دنیا میں ایسی خوارق دکھانا اپنی حکمت اور ایمان بالغیب کا تلف کرنا ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۹،۱۰، خزائن ج۳ ص۵۵ ملخص)
۴… ’’ حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ (یعنی مرزا صاحب) کے دل میں جو قومی محبت ہے۔ اس نے خدا کی محبت کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ ان دونوں معنوں کے ملنے سے تیسری چیز پیدا ہوئی جس کا نام روح القدس ہے اور اس کو بطور استعارہ کے ان دونوں محبتوں کا بیٹا کہنا چاہیے۔ یہ پاک تثلیث ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۲۲، خزائن ج۳ ص۶۲)
۵… ’’ مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی ابن اللہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۲۷، خزائن ج۳ ص۶۴)
۶… ’’ملائکہ وہ روحانیات ہیں۔ کہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں۔ یا دساتیر اور وید کے اصطلاحات کے موافق ارواح کو کب سے ان کو نامزد کریں۔ یا سیدھے طریق سے ملائکہ اللہ کا ان کو لقب دیں۔ دراصل ملائکہ ارواح کواکب اور ستارات کے لیے جان کا حکم رکھتی ہیں۔ اور عالم میں جو کچھ ہو رہا ہے ارواح کی تاثیرات سے ہو رہا ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۳۳، ۳۷، ۳۸، ۳۹، خزائن ج۳ ص۶۷،۷۰،۷۱ ملخص)