فریق اس کا جواب لکھ کر حاضرین کو سنا دے اور ایک نقل فریق ثانی کو دے دے۔ اگر یہ تمام شرطیں آپ منظور کرلیں اور اپنے ہاتھ سے رقعہ لکھ کر تینوں شرطوں کی منظوری سے مجھے اطلاع دیں۔ تو پھر میں حاضر ہو جائوں گا۔ والسلام علی من تبع الہدی۔مرزا غلام احمد ۱۱؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
حاضرین جلسہ مضمون رقعہ کو سن کر یہ مرزا صاحب کا حیلہ گریز ہے۔ بوجوہات ذیل سخت تعجب۔
۱… جس حالت میں جواب اشتہار ۶ اکتوبر چھپ کر دہلی کے ہر گلی و کوچہ میں شائع و مشتہر ہوچکا ہے اور چار معتبر ذریعوں سے وہ قادیانی صاحب کے پاس پہنچ چکا ہے۔ تو پھر اس کے بھیجنے سے قادیانی صاحب کا انکار کیونکر درست اور صحیح ہوسکتا ہے؟
۲… جب کہ وہ جواب قادیانی صاحب کو پہنچ چکا ہے اور اس میں جملہ شروط قادیانی کو بلاچون و چرا تسلیم کیا گیا ہے (جس پر انہوں نے اشتہار میں حاضری کا وعدہ دیا ہوا ہے) تو پھر قادیانی صاحب سے دوبارہ منظوری کا حاصل کرنا کیا معنے رکھتا ہے؟
۳… جس حالت میں پہلے اس خط میں پہلی شرائط کے سوا کوئی نئی شرط نہیں ہے بلکہ ان ہی شروط کا اعادہ ہے جن کو جواب اشتہار ۲ اکتوبر میں تسلیم کیا گیا تھا۔ تو پھر ان شرطوں کے اعادہ کی کیا ضرورت تھی؟
ان وجوہات سے تقریباً کل جماعت نے اس پر اتفاق کیا کہ اس خط کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ اور قادیانی صاحب کا مناظرہ سے گریز قرار دیگر جلسہ برخاست کیا جائے۔
نواب سید سلطان مرزا… نہیں ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ ان کی آخری حجت کو بھی قطع کیا جائے۔ اور اس خط کا یہ جواب دیا جائے کہ آپ کی جملہ شرائط منظور ہیں آپ تشریف لائیں۔
نواب سعید الدین احمد خان صاحب… میرا بھی اس پر صاد ہے۔
دیگر حاضرین… بہت بہتر تابد روازہ بایدر سانید۔
رقعہ لکھا گیا اور ہمدست حاجی محمد احمد صاحب و نور احمد صاحب و حواریان قادیانی صاحب بھیجا گیا۔
نقل رقعہ
بنام گرامی مرزا غلام احمد صاحب۔
بعد سلام مسنون آپ کا رقعہ مورخہ ۱۱؍اکتوبر۱۸۹۱ء بدست غلام قادر صاحب اڈیٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ وصول ہوا جس میں تین شرطیں حسب مندرجہ ذیل ہیں۔