شہزادہ صاحب… میری سواری بند گاڑی لے جائیں۔
حاجی نور احمد صاحب منشی قمر علی صاحب گاڑی میں سوار ہوئے مرزا صاحب کی فردوگاہ پر داخل۔
مرزا صاحب… مجھ کو جواب اشتہار ۶؍اکتوبر۱۸۹۱ء جس میں مکان تاریخ کی تقرری ہے اب تک نہیں ملا اور ایک رقعہ اپنے حواری غلام قادر صاحب اڈیٹر پنجاب گزٹ کے ہاتھ بھیجا۔
نقل رقعہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمد و نصلی
بخدمت جناب مخدوم حضرت سید محمد نذیر حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ افسوس کہ اس عاجز سے بحث کے بارہ میں کوئی امر قرار پانے سے پہلے خود بخود مشہور کردیا گیا کہ فلاں مقام میں بحث ہوگی حالانکہ طریق دیانت یہ تھا کہ جب تک صاف اور کھلے کھلے طور پر یہ تصفیہ نہ ہو جاتا کہ وفات حیات مسیح میں بحث ہوگی اور جب تک آپ اپنے خاص دستخطی رقعہ سے قبول شرائط کی اطلاع نہ دیتے اور مشورہ سے تاریخ قرار نہ پاتی تب تک اشتہار جاری نہ کیا جاتا مگر میرے گمان میں ہے۔ کہ سب کارستانیاں بالا بالاظہور میں آئی ہیں اور غالباً آپ کو ان باتوں کی خبر بھی نہ ہوگی لہٰذا آپ کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ اگر درحقیقت آپ اس بات پر مستعد ہیں۔ جو اظہار حق کے لیے اس عاجز سے بحث کریں گے تو آپ اپنے ہاتھ سے تحریر فرما دیں۔ کہ کل شرائط مندرجہ ذیل آپ کو منظور ہیں۔ اور وہ شرائط یہ ہیں۔
۱… بحث صرف مسئلہ حیات اور وفات حضرت مسیح ابن مریم کے بارے میں ہوگی اور کوئی دوسرا امر خلط بحث کی طرح درمیان میں نہیں آئے گا۔ صرف حیات وفات مسیح میں بحث ہوگی۔
۲… دوسرے یہ کہ امن قائم رکھنے کے لیے آپ ذمہ دار ہوں گے میں مسافر اور اکیلا ہوں۔ اور لوگ خونی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ اور بٹالوی صاحب مجھے کافر دجال بے ایمان الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ یہ آپ اپنے ہاتھ کی تحریر سے مجھے مطمئن کردیں کہ ہر ایک ہاتھ اور زبان کے روکنے کے آپ ذمہ رہیں گے اور کوئی خلاف تہذیب امر اور بے جا حرکات کسی سے سرزد ہوئیں تو اس کی جواب دہی آپ کے ذمہ ہوگی۔ یہ صاف اور کھلی تحریر سے اقرار کرنا چاہیے۔ تا کہ میرے پاس سند رہے۔
۳… تیسرے یہ کہ فریقین اپنے ہاتھ سے تحریر کریں۔ اول ہر ایک فریق تحریر کرکے حاضرین کو بلند آواز سے سنا دے اور ایک نقل اپنے بیان کے دستخط کے بعد دوسرے فریق کو دے دیں دوسرا