میں لائیں۔ اسی طرح مولوی عبد الحق صاحب بلکہ اور دو چار علماء ان کو مدد دیں۔ تو مضائقہ نہیں اس مضمون کا ایک خط بھی میاں صاحب کے نام کا خاکسار کو دیا جس کا جواب میں نے پہلے تو خود ہی میاں صاحب کی طرف سے زبانی دے دیا۔ اور ان کا وہ عذر توڑ دیا کہ آپ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے مباحثہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ تو آئیں جناب میاں صاحب سے بحث کرلیں۔ ہم جناب میاں صاحب کو وہاں لائیں گے۔ اور وہی آپ سے بحث کریں گے۔ پھر جناب میاں صاحب کی طرف سے وہ اشتہار ۶؍اکتوبر۱۸۹۱ء جس میں سبھی شرائط قادیانی صاحب کو قبول کیا گیا ہے وہ ان کے پاس بھجوا دیا۔
ٹن ٹن کی آواز گھنٹہ گھر کی گھڑی کی کان میں آئی سب صاحبان نے گھڑیاں نکال کر دیکھا ۹ بجے۔
اس وقت چار پانچ ہزار آدمیوں کا مجمع چاندنی محل میں جمع ہے اور جملہ عمائد اور رئوساء اور علماء فضلاء شہر حاضر ہیں پتہ کھڑکا اور گردن اٹھا کے دیکھا۔ ذرا آہٹ ہوئی اور جھانکا ہر ایک شخص ہمہ تن چشم بنا ہوا چشم براہ ہے وقت مقرر گزر گیا اور مرزا صاحب کی تشریف آوری کا انتظار بدستور ہے۔
شہزادہ صاحب… مرزا ثریا جاہ بھائی ہم تو شل ہوگئے۔
نواب صاحب… واللہ آنکھیں آگئیں مگر وہ نہ آئے۔
ممتاز الدولہ صاحب… (رئیس بھوپال) سبحان اللہ کیا کہا ہے سادہ کلام میں بھی شاعری۔
حکیم صاحب… کیوں نہ ہو یہ تو آپ کا ورثہ آبائی ہے۔
ڈپٹی صاحب… یہ خبر ہوتی تو کھانا کھا کر آتے۔
نواب سید سلطان… مرزا صاحب ہندوستانیوں میں وقت کی قدر اور پابندی نہیں۔
شہزادہ مرزا خورشید عالم صاحب… درست فرمایا جناب نے۔
حکیم احمد سعید خان صاحب… آپ گھاس کھا گئے ہیں۔ مرزا صاحب نے اپنا کوئی وعدہ وفا کیا ہے۔ جو اب آ جاتے۔
حکیم محمد ناصر خان صاحب… ناحق کا انتظار ہے وہ نہ آئے ہیں نہ آئیں گے۔حکیم حسن رضا خان صاحب… جب آپ لوگ مرزا صاحب کے عہد و پیمان اور قول و اقرار سے واقف تھے تو اس سردردی کی ضرورت ہی کیا تھا۔ ناحق کی تضیع اوقات۔
دیگر حاضرین جلسہ… (معزز اور معتمدان و رئوساء بہ اتفاق) میاں تلبورا دروازہ باید رسانید کوئی حجت باقی نہ ہے بجائے قرار پایا کہ کوئی صاحب مرزا صاحب کی خدمت میں جائے اور پیغام لے جائے۔