آزمائی کی، طبیعت کے جوہر دکھائے مگر دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ دراصل نواب اسد اللہ خان غالب کی پیشگوئی تھی۔
پس از سی سال این معنی محقق شد نہ خاقانی
کہ یور انیست باد نجان و بادنجان یورانی
اگر مرزا غالب مرحوم آج زندہ ہوتے تو کیا وہ دعویٰ نبوت کے مستحق نہ ہوتے۔ جنہوں نے تیس سال پہلے یہ پیشگوئی کی اور آئینہ کی طرح صفائی سے ظاہر ہوئی۔ جس میں مخالف اور موافق کسی کو کلام نہیں آج دہلی کے کوچہ و بازار کیا ہر در و دیوار پر اشتہار چسپاں ہیں۔ اور ہر ایک کی پیشانی بقلم جلی بنام نامی اسم گرامی مرزا غلام احمد قادیانی سے مزین ہے کوئی مرزا غلام صاحب قادیانی کی طرف سے اور کوئی بہ جواب اشتہار مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں۔ گو بازار کے دیوار ودر کاغذی پیرہن سے ملبوس ہے مرزا غالب کے اس شعر کے معنے آج حل ہوئے۔
ایک مختصر سا کمرہ ہے نہایت آراستہ ہے مگر سادگی کے ساتھ اس میں ایک بزرگ فرشتہ خصلت ملائک سیرت متبرک صورت نورانی چہرہ سو سوا سو برس کا سن شریف ضعیف و ناتواں مگر اظہار حق رشدہ ہدایت کے واسطے بایں چوبند گویا کمر بستہ ہیں۔ قال اللہ وقال الرسول کے سوا گفتگو نہیں قرآن و حدیث کے شیدا دنیا مافیہا کی کوئی آرزو نہیں علماء و فضلا کا مجمع روساء و امراء کا جرگہ گرد زیب مجلس ہے مگر سب مؤدب سر جھکائے قالب بے جان کی طرح تصویر کی صورت بنائے خاموش بیٹھے ہیں۔ محفل میں سکوت کا عالم ہے بزرگ کے ہاتھ میں کاغذ ہے جس پر دستخط خاص کچھ ارقام فرماتے ہیں ضعیف پیری کے باعث قلم قابو میں نہیں ہاتھ کہا نہیں مانتے مگر باایں ہمہ لکھنے میں مصروف ہیں کچھ دیر بعد سر مبارک اٹھایا اور فرمایا لیجیے یہ رقعہ لکھ دیا ہے۔
حاضرین جلسہ… نے سر گریبان تفکر سے اٹھا ہمہ تن گوش ہوکر: ارشاد
مولانا صاحب… یعنی بزرگ بہ آواز بلند یہ لکھ دیا ہے۔ بمطالعہ گرامی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی۔
راوی… خوب بیان بھی مرزا صاحب قادیانی موجود ہیں۔
مولانا صاحب… بعد سلام و مسنون مدعا یہ ہے کہ آپ کے رسائل سے آپ کی ادعاہائے ما مشروع شائع و ضائع ہوچکے تھے۔ کہ پرسوں ایک اشتہار جس کے اوائل میں تجدید ایمان و انابت ظاہر کی ہے۔ اور آخر میں اپنے خیالات فاسدہ اور توہمات باطلہ مندرج ہیں۔ نظر سے گزرا چونکہ آپ کو خود ان عقائد و خیالات اپنے کی نسبت رفع شکوک کا ادعا ہے۔ اور آپ نے اس عاجز سے بھی رفع شبہ کی استدعا کی ہے لہٰذا میں بذریعہ رقعہ ہذا آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ نے تکلف