مرید… بے شک یہ بڑا سخت مخالفین کا اعتراض ہوگا۔ اشتہار یکم فروری ۱۸۸۶ء میں جلدی کرکے غلطی کھائی تھی۔ ۷ اگست ۱۸۸۷ء کو ہی ذرا سوچ اور تامل کرکے چھپواتے مصرع
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
۲… میاں تم بھی بڑے گستاخ اور بے ادب ہو۔ توبہ کرو کافر ہوجائو گے مردود ہو جائو گے چھوٹا منہ بڑی بات ہے اپنے اندازہ سے گفتگو کیا کرتے ہیں۔ کوئی مامور من اللہ خدا کے الہام کو چھپا سکتا ہے۔ جو کچھ خدا کی جانب سے حکم ہوا ظاہر کردیا۔
۳… بے شک یہ گفتگو سوء ادبی میں داخل ہے ہم کو یا آپ کو یہ منصب نہیں۔ کہ ایسے الفاظ زبان پر لائیں۔ ع
آیاز قدر خود بشناس
کے مصداق کسی کو چوں و چرا کی کیا گنجائش اور طاقت ہے۔
مرزا صاحب… ’’۷؍اگست ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں کہا ہے کہ اسی کو بابرکت موعود ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘ (ایضاً)
شخص غیر… اس اشتہار میں صرف یہی لکھا گیا کہ یہ ۸ اپریل ۱۸۸۶ء کے الہام والا لڑکا ہے۔ مگر زبانی۲؎ زبانی کس و ناکس کو بھی کہا گیا۔ کہ یہ وہی لڑکا موعود و مسعود ہے۔ جس کا اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں وعدہ ہوا تھا۔ اور آپ نے خود ایک مضمون ایک پونہ کے رہنے والے ارد و خوان سپاہی کے نام بھی شحنہ ہند میرٹھ مطبوعہ ۱۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء چھپوایا ہے (اشاعتہ السنہ) اور ۸ اپریل ۱۷۷۶ء کا اشتہار بھی ضمیمہ اشتہار ۲؍فروری ۱۸۸۶ئ۔
مرزا صاحب ’’اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس قسم کا خباثت ہے۔ جو یہودیوں کے خمیر میں ہے اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لبوں سے یہ نکلا تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایسے بھی لوگ مسلمانوں سے ہوں گے جو یہودیوں کی صفت اختیار کرلیں گے۔ اور ان کا کام افتراء اور جعلسازی ہوگا۔ بھلا آئو اگر سچے ہو تو پہلے اسی کا فیصلہ کرلو کہ ہم نے کب اور کس وقت اور کس اشتہار میں شائع کیا تھا۔ کہ اس بیوی سے پہلے لڑکا ہی ہوگا اور وہ لڑکا وہی موعود ہوگا۔ جس کا یکم؍فروری کے اشتہار میں وعدہ دیا گیا تھا۔ اس اشتہار مذکور میں تو یہ لفظ بھی نہیں ہیں۔ وہ بابرکت موعود ضرور پہلا ہی لڑکا ہوگا۔ بلکہ اس کی صفت میں اشتہار مذکور میں یہ لکھا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ چوتھا لڑکا ہوگا یا چوتھا بچہ ہوگا۔ مگر پہلے بشیر کے وقت کوئی تین موجود نہ تھے۔ جن کو وہ چار کرتا ہاں اپنے اجتہاد سے یہ خیال ضرور کیا تھا۔