سے دعا کریں یہ بچہ جی جائے خدا کے مقبول بندے تو سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ہائے میری گود کا پالا کئی دن جاگا۔ ایسی میٹھی نیند سویا۔ بچہ کے منہ سے کپڑا اٹھا کر ہائے میرا چاند۔
حکیم صاحب حضرت اقدس کو باہر مردان خانہ میں لے گئے۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ مکان جو عشر ت کدہ خاص تھا۔ ماتم سرائے عام ہوگیا عورتوں سے گھر بھر گیا۔ در و دیوار سے حزن و غم برستا ہے۔ رونے پیٹنے واویلا کی صدا بلند ہے۔ فلک پیر نے اس قدر ماتم کیا کنارسر تا پا نیلگوں ہوگیا۔ مردانہ میں زنان خانہ سے زیادہ شورشین اور ماتم بپا تھا۔ کسی کا ہوش نہ بجا تھا۔
میر صاحب… افسوس کل کیا تھا۔ اور آج کیا ہوگیا۔ خدا کے کارخانہ میں کسی کو دخل نہیں۔
شاہ جی… انسان کیا اس کا ماتم تو فلک پر فرشتوں میں ہوتا ہے۔
مولوی صاحب… جس مولود کی پیدائش کے خوشی کے شادیانے فلک پر پہنچے تھے۔ اس کا ماتم آسمان پر کیوں نہ ہو۔
خوشامدی… آج تو سب کو سیاہ لباس پہننا چاہیے۔ آسمانوں پر ملائک نے تو ضرور ماتمی لباس پہنا ہوگا۔
۳… اس میں کیا شک ہے۔ جب حضرت اقدس کے والد ماجد مرحوم و مغفور کا انتقال ہوا تھا۔ تو خدا نے پرسا دیا یعنی عزا داری کی تھی۔ اور اولاد کا صدمہ تو بڑا صدمہ ہے۔ خدا دشمن کے بھی نصیب نہ ہو اور اولاد وہ اولاد کأن اللہ نزل من السماء جس کی شان میں نازل ہو۔
حکیم صاحب… حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کرنا بے ادبی ہے۔ ہمارا منصب نہیں۔ بے اجازت زبان کھولیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا ایھا الذین آمنو لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ مگر بہ ادب عرض ہے۔ کہ ماتم وہ نہیں جس سے ہاتھ اٹھایا جائے۔ اور یہ غم وہ نہیں جس کا داغ تازیست کیا بعد مرگ بھی سینہ سے جائے مگر بجز صبر و شکیبائی چارہ ہی کیا ہے۔
عرفی اگر بہ گریہ شدے وصال
صد سال میتوان بہ تمنا گریستن
مولوی صاحب… اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کا امتحان کرتا ہے۔ یہ اس کی قدیم سنت ہے۔
۲… ان اللہ مع الصابرین آخر سب کو ایک دن یہ راہ درپیش ہے۔
مرزا صاحب… ’’بعض نادان دل کے اندھے یہ اعتراض پیش کریں گے کہ یکم۱؎ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں ایک پسر موعود کا وعدہ جیسا کہ ظاہر کیا گیا تھا پورا نہیں ہوا۔ کیونکہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی اور اس کے بعد جو لڑکا پیدا ہوا اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔ جو سولہ مہینے کا ہو کر فوت ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۷۱، خزائن ج۱۵ ص۲۸۹)