میاں… (بچہ کا باپ) تم گھبرائی کیوں ہو۔ اور نا امید کیوں ہوتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نزدیک کوئی بات ان ہونی نہیں اس میں سب قدرت ہے۔
بیوی… اب اس کی کیا امید ہے کوئی دم کا مہمان ہے۔ لبوں پر جان ہے۔ ایسے بیمار کبھی اچھے ہوئے ہیں؟ ہماری تقدیر میں جننا اور گھڑے بھرنا ہے۔ ایسی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے تو کوئی اولاد کی خواہش بھی نہیں کی تھی۔ اگر اللہ میاں نے مہربانی کرکے دی تھی۔ تو اس کو زندہ رکھتا۔
میاں… تم ناحق گھبراتی ہو۔ خدا پر نظر رکھو نا امید مت ہو۔ یحیی الموتی اس کی صفت ہے وہ مردہ کو زندہ کرتا ہے۔ بیمار کا تندرست کرنا کیا بڑی بات ہے۔ حکمت کے رو سے بھی ہمارا تجربہ ہے۔ اس سے سخت سخت بیمار تندرست ہو جاتے ہیں ان کے علاوہ وہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ مجھ کو اللہ تعالیٰ کے ذریعہ الہام بشارت دی ہے۔ یہ لڑکا بڑا صاحب بخت و اقبال ہوگا۔ اور اس کا نام سمندروں کے کناروں تک مشہور ہوگا اور قیامت تک اس کا نام صفحہ دنیا سے نہ مٹے گا۔
بیوی… اللہ کرے تمہاری زبان مبارک ہووے مگر مجھ کو تو کوئی امید کی صورت نظر نہیں آتی۔
میاں… تم کو ہمارے الہام پر بھی ایمان نہیں۔
بیوی… میں ان وہمی باتوں کی قائل نہیں بھلا پہلے حمل میں الہام ہوا تھا لڑکا ہوگا اور وہ ایسا ہوگا ایسا ہوگا۔ تو لڑکی ہوئی وہ بھی زندہ نہیں مردہ اب اس لڑکے کی نسبت جو اشتہار دیا کہ یہ وہی موعود ہے۔ تو اس کی جان کے لالے پڑے ہیں۔ اللہ کرے یہ بچ جائے اب سے پیچھے مت کہنا۔ کہ یہ لڑکا موعود ہے۔ میرا بچہ جیتا رہے میں تمہارے وعدہ وعید سے درگزری۔
میاں… تم تو ناحق گھبراتی ہو اتنے میں خادمہ نے عرض کی حکیم جی آئے ہیں۔ پردہ ہوا۔
حکم جی اندر آئے اور شیشی سے دوا نکال کر بچہ (بیمار) کو پلائی۔ اور کہا مجھ کو کیا حکم ہے۔
بزرگ… و بچہ کا باپ اب کیا حالت ہے۔ میرے خیال میں تو اب ردی حالت ہے۔
حکیم… حضرت خود حکیم اور مؤید من اللہ ہیں۔ آپ کے رو برو کچھ کہنا بے ادبی میں داخل ہے۔ میرے خیال میں حضور باہر تشریف لے چلیں خدا نا کرے حضور کی طبع مبارک ناساز ہو جائے۔
یہ گفتگو ہورہی تھی بچہ نے ایک ہچکی لی۔ اور جان بحق تسلیم ہوا۔
ماں… (بے خودی کے عالم میں) ہائے میرا بچہ، حکیم جی بچانا۔ ہائے ہائے یہ کیا ہوگیا۔
خادمہ… ہائے میرا لاڈلا اب میں کس کو کھلائوں گی۔۲… روتی چلاتی ہوئی ہائے یہ کیا ہوا دوڑیو کوئی باہر جا کر حضور اقدس کو تو خبر کر دو وہی کچھ خدا