بیڑا پار ہے۔
پیر جی بابا گھبرانے سے کچھ نہیں ہوتا خدا کی مہربانی اور فضل پر نظر رکھنی چاہیے۔
وہ اسے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ مایوس ہو اس سے امیدوار
راگ رنگ موقوف روشنی کے سامان بڑے دھوم سے کیا گیا تھا۔ اور سیر دیکھنے میں لوگ مصروف ہوئے پیر جی اٹھ کھڑے ہوئے۔ خادم نذر و نیاز کا روپیہ سب اکٹھا کر ساتھ ہوئے۔ کھانا ہر کا ایک اس کے قیام گاہ پر بھیجا گیا۔ صبح کو پیر جی کا دربار خاص منعقد ہوا ہر ایک مرید اور خواہش مند بمصداق تنہا پیش قاضی روی راضی آئے کے ایک کوٹھے میں جہاں پیر صاحب رونق افروز تھے۔ تنہا جاتا اپنا حال سناتا۔ روائے حاجت چاہتا۔ جواب شافی پاتا چلا آتا اندر زنا نخانہ سے ایک خادمہ آئی۔
خادمہ… حضور منجھلے میاں کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا مبارک۔
ناظرین سمجھ تو گئے ہوں گے یہ دربار کس بزرگ وار کا ہے اور پیر جی کون صاحب ہیں۔ اور منجھلے میاں کون ہیں۔ مگر ہم بھی عام لوگوں کو سمجھانے کی غرض سے لکھتے ہیں یہ پیر صاحب سلطان العارفین۱؎ امام السالکین مرزا امام الدین صاحب ہیں۔ اور مرزا نظام الدین صاحب ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ جو ہمارے ناول کے ہیرو حضرت مسیح زمان مہدی دوران مرزا صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں۔پیر جی… نہایت خوشی کے لہجہ میں الحمد للہ اللہ تعالیٰ عمر طبعی کو پہنچائے صاحب تخت و دوست کرے۔ کب ہوا۔
خادمہ… ابھی ابھی بس حضور کی خدمت میں دوڑی ہی آئی ہوں۔
پیر جی… ہاں خوب یاد آیا ہے۔ کہ ان لوگوں کو کہہ دیا کہ آج اور کل کوئی شخص نہ جائے جلسہ ہوگا۔
خادم… نے سب لوگوں کو پکار کر منادی کردی کہ پیر جی کے بھتیجا (یعنی بھائی کے گھر لڑکا) پیدا ہوا ہے۔ اس کا جلسہ اور دعوت کا سامان ہوگا۔ کوئی بے اجازت نہ جائے۔
فوراً جلسہ کا سامان شروع ہوا شامیانہ لگایا گیا۔ لاہور امرتسر سے گائنین بلائی گئیں۔ اور بڑی دھوم دہام سے جلسہ رقص و سرود اور دعوت کیا گیا۔ رنڈیوں کے گانے اور سارنگیوں کے زونٹوں