پر پتلا اور سفید کپڑا سبز رنگ کا پھریرا اڑ رہا ہے بانس کے سر پر مور کے پر کا مورچھل بندھامنڈی کے پاس جھنڈا (چھڑٹے) کے نیچے چارپائی بچھی ہے۔ اس پر سفید بستر لگا ہوا ہے چارپائی کے اوپر تکیہ کے سہارے ایک بزرگ درویش صورت لمبی داڑھی سرخ سفید رنگ نورانی چہرہ سبز کا ہی عمامہ سر پر کہربائی کرتہ در پر سبز سرخ سیاہ نیلے پیلے منکوں کی پنجرنگی تسبیح گلے میں پتلا رومال ہاتھ میں لال لال آنکھیں رعب دار چہرہ منہ سے حقہ لگائے صوفی صافی کی شکل بنائے چارپائی سے پائوں لٹکائے۔ دنیا سے ہاتھ اٹھائے بیٹھا ہے۔ پیروں کے پاس پلنگ کے نیچے ایک سفید چادر بچھی ہے۔ لوگ آتے ہیں۔ پیر کے پائوں کو چوم قدم کو ہاتھ لگا ماتھا ٹیک کوئی مرغا کوئی بھیڑ بکری کا بچہ چڑھا روپیہ دو روپیہ پیر کے سر پر چادر پر ڈال دیتا ہے اور اس طرح الٹے پائوں نو قدم ہٹ کر مجلس میں جا بیٹھتا ہے۔ خادم مرغا مرغی بھیڑ بکری کے بچہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ چاروںطرف بیس بیس پچیس پچیس کا غول دوڑے جاتے ہیں۔ بھجن گاتے ہیں۔ گوگا پیر کے مناقب سناتے ہیں۔ چادر پر روپیوں کے کوڑیوں کی طرح ڈھیر لگا ہوا ہے۔ پیر جی حقہ کا دم کھینچ دھو ان اوڑا۔ وہ بچو کیا کہتا ہے۔ خوش کردیا۔
مرید داتا پیر کے پائوں کی برکت ہے۔ تیری جوتیوں کا صدقہ ہے۔ ایک بچہ دلوادے اگلے برس اس کو گود میں لے کر آئوں۔
۲… بیاہ کرادے گھر ویران ہے۔ تنہائی میں دل گھبراتا ہے۔ اگلے سال اکیلا نہ ہوں چوہڑی ساتھ ہو۔
۳… ابے چپ یہ موقع گفتگو کا نہیں دیکھ کوئی بولتا ہے۔
۴… بابا پیر کے مہر کی نظر چاہیے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس پر سب کچھ روشن ہے یہی تو کرامات ہے۔
پیر جی… مسکرا کر ارے بھائی میں بڈھا آدمی لڑکا کیا میری جھولی میں ہے جو نکال کر دیدوں۔ اور عورتوں کی کیا میرے پاس کھڑک بھر دی ہوئی ہے۔ جو پکڑ کر دیدوں بابا فقیروں کے پاس تو دعا ہوتی ہے۔ اچھا کہیں گے۔ گرو بھلی کرے گا۔
مرید… کھڑے ہو کر اور ہاتھ باندھ کر بس مہاراج یہی تو ہم چاہتے ہیں۔ اور ہم کیا کہتے دعا کرو گرو کی کرم کی نظر ہو جائے آپ کا نام ہمارا کام ہو جائے برکریماں کار ادشو ارنیست۔
۱… پیر کے چرنوں لگ جا داتا گرو ساری مرادیں پوری کرے گا۔ پیر کے مہر کی نظر چاہیے