دیگر خوشامدیوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔
مولوی صاحب… نے مضمون اشتہار لکھ کر پیش کیا بعد ملاحظہ پسند خاطر اقدس ہو کر بدست خاص مزین ہوا، اور مطبع میں بھی روانہ کیا گیا اور چند مخالفین کے پاس قلمی اشتہار تحریر کراکر بذریعہ رجسٹری بھیجے گئے۔
’’جاء الحق وزھو الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘
خوشخبری
’’ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں۔ کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لیے میں نے اشتہار ۸ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدائے تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھلے کھلے بیان میں لکھا تھا۔ کہ اگر وہ حمل موجود میں پیدا نہ ہو۔ تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے۔ ضرور پیدا ہوگا۔ آج ۱۶ ذیقعدہ ۱۳۰۲ ہجری مطابق ۷ اگست ۱۸۸۷ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہوگیا۔ الحمدﷲ علی ذالک!
اب دیکھنا چاہیے کہ یہ کس قدر بزرگ پیشگوئی ہے جو ظہور میں آئی۔ آریہ لوگ بات بات میں یہ سوال کرتے ہیں۔ کہ ہم وہ پیشگوئی منظور کریں گے۔ کہ جس کا وقت بتایا جائے سو اب یہ پیشگوئی انہیں منظور کرنی پڑی کیونکہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ حمل دوم بالکل خالی نہیں جائے گا۔ ضرور لڑکا پیدا ہوگا اور وہ اس حمل سے کچھ دور نہیں بلکہ قریب ہے یہ مطلب اگرچہ اصل الہام میں مجمل تھا لیکن میں نے اس اشتہار میں لڑکا پیدا ہونے سے ایک برس چھ مہینے پہلے روح القدس سے قوت پا کر مفصل طور پر مضمون مذکورہ بالا لکھ دیا یعنی یہ کہ اگر لڑکا اس حمل میں نہ ہوا تو دوسرے حمل میں ضرور ہوگا۔ آریوں نے حجت کی تھی کہ یہ فقرہ الہامی جو کہ ایک مدت سے حمل سے تجاوز نہیں کرے گا۔ حمل موجودہ سے خاص تھا جس سے لڑکی ہوئی۔ میں نے ہر ایک تحریر اور تقریر میں انہیں جواب دیا۔ کہ یہ حجت تمہاری فضول ہے۔ کیونکہ کسی الہام کے معنے وہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ کہ ملہم آپ بیان کرے۔ اور ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز فوقیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ ملہم اپنے الہام سے اندرونی واقفیت رکھتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے خاص طاقت پا کر اس کے معنے کرتا ہے۔ پس جس حالت میں لڑکی پیدا ہونے سے کئی دن پہلے عام طور پر کئی سو اشتہار چھپوا کر میں نے شائع کروائے۔ اور بڑے بڑے آریوں کی جماعت میں بھیج دے۔ تو الہامی عبارت کے وہ معنے قبول نہ کرنا جو خود ایک خفی الہام نے میرے پر ظاہر کیے اور پیش از ظہور مخالفین