اور ہزار طرح کی رسوائی ہوگی۔ اگر منظور نہیں تو خیر جلد ہی مجھے اس جگہ سے لے جائو پھر میرا اس جگہ ٹھہرنا مناسب نہیں۔
جیسا کہ عزت بی بی نے تاکید سے لکھا ہے۔ اگر نکاح نہیں ٹلتا۔ پھر بلا توقف عزت بی بی کے لیے کوئی قادیان سے آدمی بھیج دو۔ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۴، احتساب ج۲۰ ص۶۸۰)
یادداشت کتاب مذکور کے حاشیہ صفحہ ۱۲۳ میں لکھا ہے۔ ’’اس جگہ پر مرزا صاحب کے دستخطی خطوں کو جو مجھے ایک دوست شیخ نظام الدین صاحب پنشز راہوں کی معرفت مرزا علی شیر صاحب سمدھی مرزا صاحب سے ملے ہیں درج کیے گئے۔‘‘ مرزا احمد بیگ کی زوجہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی چچا یا ماما زاد ہمشیرہ ہے۔ مرزا علی شیر صاحب کی لڑکی عزت بی بی فضل پسر مرزا صاحب کی زوجہ ہے اب مرزا محمد حسین صاحب راہوں کے خط سے معلوم ہوا کہ باوجود بہت دھمکانے کے فضل احمد نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی اس لیے فضل احمد کو بھی علیحدہ کردیا۔
حاشیہ جات
۱؎ اشاعتہ السنتہ نمبر ۶ جلد ۹۳ اور ہر فریق ثانی ناکح اور اس کے وارثوں کو دھمکانا اور ڈرانا شروع کیا مگر وہ لوگ بھی جواں مرد نکلے اور اس کی دھمکیوں کو گیڈر بھبکیاں قرار دے کر اپنے خیال پر قائم و مستحکم رہے ان کے نام کے خطوط کو اس مقام میں نقل کرنے کی گنجائش نہیں دیکھی اور بجائے اس کے قادیانی کے اعتراف و اقرار تخویف ڈرانے و خط نویسی کو نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ آپ اشتہار چار ہزار کے نوٹ صفحہ ۴ میں فرماتے ہیں ’’احمد بیگ کے ورثاء کا قصور تھا کہ انہوں نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی خط پر خط بھیجے ان سے کچھ ڈرا پیغام بھیج سمجھایا گیا کسی نے اس طرف ذرا التفات نہ کی اور احمد بیگ سے ترک تعلق نہ چاہا آخر۔‘‘
۲؎ ناظرین اس عبارت اور اشتہار ۲۰ فروری ۸۶ء کی پیشگوئی بشارت فرزند ارجمند کان اللہ نزل من السماء جو کسی صفحہ گزشتہ پر درج ہے اور فقرہ (خواتین مبارکہ سے جن میں سے بعض کو تو بعد میں پائے گا۔ تیری نسل بہت ہوگی اور عبارت سرسید تفسیر القرآن جلد ۳ صفحہ ۳۲ (تمام یہودی یقین رکھتے ہیں کہ ان میں ایک مسیح پیدا ہونے والا ہے جو یہودیوں کی بادشاہت کو پھر قائم کرے گا اس لیے یہودی اور یہودی عورتیں بیٹا ہونے کی نہایت آرزو رکھتی تھیں اور دعائیں مانگتی تھیں اور عبادتیں کرتی تھیں۔ کہ وہ شخص ہمارا ہی بیٹا ہو) ملا کر پڑھیں اور غور کریں کہ مجموعی حوالجات یکجائی حالت میں پڑھنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی اصل کیا ہے۔