کے ذریعہ سے مسترد و متروک کردیا اب زمانہ کے گزرنے پر نیا فلسفہ جاری ہوا جس کی بناء (برخلاف قیاسات و توہمات) مشاہدہ اور تجربہ پر ہوئی جس کا رخ تیرہویں صدی کے اخیر میں ہندوستان اور پنجاب کی طرف ہوا۔ اور کل سرکاری اور قومی سکولوں اور کالجوں میں اس کی شاخوں میں اس کی تعلیم ہو رہی ہے۔ اور جس کی بدولت اس نظام عالم پر جس کو نامور حکیم بطلیموس نے قائم کیا تھا۔ طلباء ہنسی اڑا رہے ہیں۔ الغرض جب تجربہ اور مشاہدہ کے نظام عالم زمانہ حال کی سائنس اور فلسفہ نے یونانیوں کے اس وہمی اور قیاس فلسفہ کو باطل کردیا۔ تو وہ پرانا علم کلام ہے بے تصرف رہ گیا۔
ہمارے زمانہ کے علماء اسلام کا حقیقی فرض تھا۔ کہ حال کی سائنس و فلاسفی وغیرہ کے مقابلہ میں کوئی نیا علم تیار کرتے۔ اور جو اوہام و شکوک زمانہ حال کے لوگوں کے دلوں میں جاگزین تھے۔ ان کے دور کرنے کی کوشش کرتے مگر کسی بزرگ نے اس طرف توجہ نہیں کی۔
ایسے نازک اور پرآشوب زمانے میں سرسید بالقابہ کے جو قدرۃ ہمدردی بنی نوع انسان اور فطرۃً درد مند دل اپنے ساتھ لایا تھا۔ اپنی قوم کی جو ایسی ردی حالت دیکھی کہ خدا کسی کو بھی نہ دکھائے اور اسلام کو قابل رحم حالت میں پا کر سینکڑوں دیگر امور کی اصلاح کے ساتھ ہی یہ بھی عاقبت اندیشی کی کہ مروجہ سائنس اور فلاسفی کو جس کا مذہب اسلام سے مقابلہ پڑتا نظر آیا مدنظر رکھ کر ہندوستان کے بزرگ اور مقدس مولویوں کی خدمت میں اپیل کی کہ اس طوفان بے تمیزی کے مقابلہ میں کمر باندھیں۔ اور پرانے تیر تفنگ کی بجائے کسی نئی توپ اور سنائیدر بندوق سے کام لیں مگر کسی نے نہ سنی۔ اور سب کے سب کو اہل غرض اور دیوانہ بتلایا اس لیے اس مرد میدان نے سب سے مایوس ہو کر خود کمر ہمت باندھی اور بلند حوصلے اور مضبوط دل سے اس کام میں مصروف ہوا کہ خدا وند تعالیٰ کی قولی اور فعلی (قرآن و نیچر) دونوں کتابوں کو جو دراصل ایک ہیں باہم مطابق اور موافق کر دکھایا۔ اور جن لوگوں نے مخالفت کی۔ سب کے سب ہارے تھکے اور ماندے ہو کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ علمائوقت اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ …… اعلیٰ اور بے مثل تحقیقات میں اس (سرسید) نے بعض مقاموں میں ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔ اور کیا عجب ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ کیونکہ غلطیوں سے پاک اور صاف رہنے کا منصب تو خداوند تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو عطا فرمایا ہے جو فطرۃً معصوم ہیں۔
سرسید نے یہ دعوی نہیں کیا کہ میں نبی یا رسول ہوں۔ اور نہ اپنے تئیں امام وقت ظاہر کیا بلکہ وہ انبیاء علیہم السلام سے برابری کرنے والوں کو مشرک فی صفتہ النبوۃ جانتا ہے اور قرآن شریف کو ہر وقت بلکہ ہر آن تمام دنیا کے لیے حی امام مانتا ہے۔ اس کا یہ مقولہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔