ورنہ جہاں میں رخصت ہوا۔ ایسا ہی سب ناطے رشتے بھی ٹوٹ گئے۔ یہ باتیں خطوں کی معرفت مجھے معلوم ہوئی تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں تک درست ہیں واللہ اعلم راقم خاکسار غلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۴ مئی ۱۸۹۱ء (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۲،۱۲۳، احتساب ج۲۰ ص۶۷۸،۶۷۹)
نقل خط مرزا صاحببسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی
والدہ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے۔ کہ چند روز تک (محمدی) مرزا احمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے۔ اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتہ ناطہ توڑ دوں گا۔ اور کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اس لیے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں۔ کہ اپنے بھائی مرزا احمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کرائو۔ اور جس طرح تم سمجھا سکتی ہو اس کو سمجھائو۔ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو آج میں نے مولوی نور دین اور فضل احمد کو خط لکھ دیا ہے۔ کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئو تو فضل احمد عزت بی بی کے لیے طلاق نامہ لکھ کر بھیج دے اور اگر فضل احمد طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے۔ تو اس کو عاق کیا جائے اور اپنے بعد اس کو وارث نہ سمجھا جائے۔ اور ایک پیسہ وراثت کا اس کو نہ ملے سو امید رکھتا ہوں کہ شرطی طور پر اس کی طرف سے طلاق نامہ لکھا آجائے گا۔ جس کا مضمون یہ ہوگا کہ مرزا احمد بیگ محمدی کا غیر کے ساتھ نکاح کرنے سے باز نہ آئے تو پھر اسی روز سے جو محمدی بیگم کا کسی دوسرے سے نکاح ہوگا۔ اس طرف عزت بی بی پر فضل احمد کی طلاق پڑ جائے گی۔ یہ شرطی طلاق ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ آپ کو بجز قبول کرنے کے کوئی راہ نہیں۔ اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کردوں گا۔ اور پھر وہ میری وراثت سے ایک ذرہ نہیں پاسکتا اور اگر آپ اس وقت اپنے بھائی کو سمجھالو۔ تو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عزت بی بی کی بہتری کے لیے ہر طرح کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اور میری کوشش سے سب نیک بات ہو جاتی مگر تقدیر غالب ہے۔
یاد رہے کہ میں نے کوئی کچی بات نہیں لکھی۔ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ اور خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہوگا اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہیں رہے گا۔
راقم مرزا غلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۴ مئی ۱۸۹۱ء
(کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۳،۱۲۴، احتساب ج۲۰ ص۶۷۹،۶۸۰)
ازطرف عزت بی بی بطرف والدہ
اس وقت میری بربادی اور تباہی کی طرف خیال کرو۔ مرزا صاحب کسی طرح مجھ سے فرق نہیں کرتے اگر تم اپنے بھائی کو میری باتوں کو سمجھائو تو سمجھا سکتی ہو۔ اگر نہیں تو پھر طلاق ہوگی۔