کے بعد اس پیشگوئی کے ظہور کے لیے صدق دل سے دعا کرتے ہیں۔ سو یہ ان کی ہمدردی اور محبت ایمانی کا تقاضا ہے۔ اور یہ عاجز جیسے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لایا ہے۔ ویسے ہی خدا تعالیٰ کے ان الہامات پر جو تواتر سے اس عاجز پر ہوئے۔ ایمان لایا ہے۔ اور آپ سے ملتمس ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کے لیے معاون بنیں تاکہ خدا تعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔ خدا تعالیٰ سے کوئی بندہ لڑائی نہیں کرسکتا۔ جو امر آسمان پر ٹھہر چکا ہے۔ زمین پر وہ ہرگز بدل نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی برکتیں عطا کرے اور اب آپ کے دل میں وہ بات ڈالے جس کا اس نے آسمان پر سے مجھے الہام کیا ہے۔ آپ کے سب غم دور ہوں۔ اور دین اور دنیا دونوں آپ کو خدا تعالیٰ عطا فرمائے اگر میرے اس خط میں کوئی ناملائم لفظ ہو تو معاف فرما دیں۔ والسلام!
خاکسار احقر عباد اللہ غلام احمد عفی عنہ
۱۷ جولائی ۱۸۹۰ء
(کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۰،۱۲۱، احتساب ج۲۰ ص۶۷۶،۶۷۷)
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی مرزا علی شیر بیگ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم رحمتہ اللہ
اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کہ مجھ کو آپ سے کسی طرح سے فرق نہ تھا۔ اور میں آپ کو ایک غریب طبع اور نیک خیال کے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں۔ ہندوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اور اللہ رسول کے دین کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے اور اپنی طرف سے میری نسبت ان لوگوں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے۔ کہ اس کو خوار کیا جائے ذلیل کیا جائے روسیاہ کیا جائے یہ اپنی طرف سے ایک تلوار چلانے لگے ہیں۔ اب مجھ کو بچالینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے بچائے گا۔ اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کرکے اپنے بھائی کو سمجھاتے تو کیوں نہ سمجھ سکتا۔ کیا میں