یہ نامراد برادری کے جھگڑے تنازعہ ایسے ہیں قریبی عزیزوں کو دور کر دیتے ہیں۔ غیر کیا دشمن بنا دیتے ہیں۔
فضل احمد (چھوٹے بیٹے) کی بیوی کی معرفت سلسلہ جنبانی کی جائے تو مصلحت ہے۔
پہلے عزت۱؎ بی بی کے باپ مرزا علی شیر سے اس معاملہ میں مشورہ کیا جائے یہ رات جو روز حشر سے طولانی اور حسرت عشاق سے لایعنی ہیں۔ بڑی مشکل سے کاٹی پائوں کی آہٹ معلوم ہوئی۔شاہ جی… (نووارد) یہ دوا کی شیشی حکیم صاحب نے دی ہے۔ اس کو نوش جان فرما لیجیے۔ نیند آجائے گی۔
حضرت اقدس… شیشی کلورائیڈاٹ سے ایک گلاس میں ڈال غٹ غٹ نوش فرمایا اور فوراً آنکھ بند ہوگئی اور خراٹے لینے لگے۔
صبح کو جب آفتاب برآمد ہوا کمرہ کا دروازہ کھلا ایک خاتون صاحب عصمت و عفت و حیا، چالیس پچاس برس کا سن وسال سفید سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے روبرو آئی۔
خاتون چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر اور ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کیوں خیریت تو ہے نماز صبح کا وقت اخیر ہوا اور آپ ابھی اٹھے نہیں۔ رات نصیب اعداء کیا طبیعت ناساز رہی۔
میاں… ہاں رات اختلاج القلب کی شکایت رہی۔
بیوی اللہ رحم کرے یہ نامراد بیماری نہیں جاتی ہے۔ ہمیشہ دورہ ہو جاتا ہے۔ علاج کرنا تھا۔ تم خود حکیم اور حکما مکان پر رہتے ہیں۔ خدا نہ کرے۔ شیطان کے کان بھرے۔
میاں… علاج سے تو میں بھی غافل نہیں۔ ہاں خوب آیا میں نماز پڑھ لوں۔ تم سے ایک معاملہ میں مشورہ کرنا ہے۔
بیوی… الٰہی خیر مجھ سے کیا مشورہ ہے۔ کبھی آگے نہ پیچھے۔
میاں… (نماز پڑھ کر) احمد بیگ ہوشیار پوری کی بڑی بیٹی محمدی کی ابھی کہیں نسبت وغیرہ تو نہیں ہوئی۔
بیوی… نہیں مسکرا کر کیا اس سے نکاح کا ارادہ ہے؟
میاں… ہاں ہم کو الہام ہوا ہے کہ اس کا نکاح ہمارے ساتھ مقدر ہوچکا ہے۔
بیوی… (ذرا آشفتہ ہو کر ناک بھون چڑھا کر) پھر کرلو۔
میاں… مگر تمہاری امداد کی ضرورت ہے۔ سعی کرنا۔
بیوی… جب خدا نے مقدر کردی تو اس کا روکنے والا کون اور کسی کی امداد کی ضرورت کیسی؟