میاں… (غصہ کے لہجہ میں) تم تو بگڑ کر یہ باتیں کرنے لگیں۔ کہو (پھر نرم آواز سے) ہم کو تو تم سے بڑی امید تھی۔ کہ اپنے بھائی مرزا علی شیر کی معرفت یہ معاملہ بہ آسانی درست کرا دو گی۔
بیوی… (تیوری چڑھا کر) اے چلو ہٹو بھی تمہیں تو بڑا عشق ہوا ہے میرے بھی سفید چونڈہ میں تھکوائو گے کیا۔ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنی سفید داڑھی کی طرف دیکھو۔ ساٹھ کے لگ بھگ عمر آئی۔ اور ابھی بیاہ کی ہوس؟ کہاں دس بارہ برس کی نادان لڑکی پوتیوں کے ہان کی اور کہاں تم کو شرم نہیں آتی؟ ایک تو ہے کیا جوروں کا باڑہ بھرو۔ ایک شادی کو تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں۔ کیا ہر سال نیا نکاح ہوگا۔
زن تو کن اے خواجہ در ہر بہارکہ تقویم پارینہ نیا بد بکار
میاں… خدا کا حکم اسی طرح ہے۔ خدا کے مامور اس کے حکم کے خلاف کسی لائم کی ملامت اور طاعن کے طعن سے ڈر کر کوئی کام نہیں کرتے۔
بیوی… میرے سے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ میں کس منہ سے کرسکتی ہوں آخر وہ قریبی رشتہ دار ہیں۔ ایک بی بی جوان جس کے نکاح کو دو برس بھی نہیں ہوئے گھر میں موجود اور خدا نہ کرے کچھ بانجھ نہیں۔ بیمار نہیں۔ بدشکل نہیں بے تمیز نہیں دہلی کی رہنے والی کم ذات نہیں سیدانی ہے۔ دوسری بیوی کا تو کیا ذکر ہے۔ وہ تو تقویم پارینہ بڈھیا ہو کر پوتے پوتیوں والی ہوئی اب تیسری شادی کی تجویز ہے وہ بھی بیوی کی معرفت (کہ اپنے بھائی سے کہو وہ سعی کرے) جس کے دو جوان بیٹے لائق موجود ہیں۔
میاں… جو اس معاملہ میں جان توڑ کوشش نہیں کرے گا۔ وہ خدا کا دشمن ہے۔ اور گویا وہ خدا کے ارادہ کو روکتا ہے۔ ہذا فراق بینی و بینک۔
بیوی… جب خدا کا ارادہ ہے تو بندہ کون روک سکتا ہے۔ بیوی چلی گئی۔
ہمارے حضرت اقدس تدبیر میں کامیاب نہ ہوئے۔ تو مرزا احمد بیگ کو خط لکھا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ: ’’خدا تعالیٰ نے اپنے الہام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے۔ کہ اگر آپ اپنی دختر کلان کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں۔ تو تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ سے دور کردے گا۔ اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھ کر برکت پر برکت دے گا۔ اور اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا۔ تو آپ کے لیے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور مصیبت اور موت ہوگی۔ یہ دونوں طرف موت کے ایسے ہیں۔ جن کو آزمانے کے بعد صدق اور کذب معلوم ہوسکتا ہے۔ اب جس