دو رکعت نماز پڑھی بیٹھا بھی نہیں جاتا
اے مصحفی بتوں میں ہوتی ہے یہ کرامت
دل پھر گیا نہ تیرا آخر خدا سے دیکھا نہ نیند آتی ہے۔ نہ بیٹھا جاتا ہے۔ سرہانے سے کتاب اٹھا کر دو چار ورق الٹ پلٹ کر رکھ دی۔
خدایا یہ معاملہ کیا ہے۔ تو ہی عزت و آبرو کا نگہبان ہے۔ اگر بے تابی سے ایسے ہی پائوں پھیلائے۔ تو سارا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا۔ غیر لوگ تو گئے جھولہ میں اور آئندہ کی رجوعات بھاڑ میں جو مرید پھنس گئے ہیں۔ اور اب موجود ہیں۔ ان کا بھی بھروسہ نہیں کہ رہیں کروٹ لے کر۔
اے خضر اتنے دن تیرے کیونکر بسر ہوئے
ہم سے تورات کٹ نہ سکی انتظار کی
چارپائی پر بیٹھ کر سر کو پکڑ کر آہے سر چکر کھانے لگا۔ یا ارحم الرحمین کیا کروں۔ دائم مرض کے سبب بدن میں ہلنے کی طاقت نہیں۔ ذیابیطس ضعف دماغ اور دوران سر میرے ہمزاد کی طرح جان کے ساتھ جائیں گے۔ اب بڑھاپے میں عشق اور کیا معنی اور عشق بھی ایک نادان لڑکی کا۔
نادان ہے کم سن ہے بہت، عمر ہے تھوڑی
ان کو تو وفا کیسی جفا بھی نہیں آتی
لاَ حَول ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم ہمت ہارنی عشق میں انجام کار سوچنا عقل کے خلاف ہے۔
دلانا امید مت وصل ہو اس کے عاشق کو
مزے ہیں سو طرح کے عالم امیدواری ہیں
آخر ہماری برادری میں بھی قریب رشتہ داری ہے۔ میں بھی کچھ چوھڑا نہیں، چمار نہیں خدا کی عنایت سے عزت میں، دولت میں، شہرت میں، امارت میں کچھ زیادہ ہی ہوں دوسرے قرابت قریبہ سے پھر سلسلہ جنبانی کیوں نہ کی جائے۔
لڑکی کے باپ کو خط لکھا جائے۔ لڑکی کی ماں بھی ہماری چچیری بہن ہے کسی کو کان و کان بھی خبر نہ ہوگی۔
مزا ہے ہووے گر چپکے ہی چپکے مدعا حاصل
کسی نے کرلیا معلوم راز دل تو کیا حاصل