مرزا صاحب… بسر و چشم میرا کام ہی کیا ہے۔ میرا فرائض منصبی یہی ہے۔ اور اس عاجز نے اپنی جان و مال کو اس راہ میں وقف کیا ہوا ہے۔
مولوی صاحب… اس گفتگو کے بعد مرزا صاحب سے رخصت ہوکر اپنے مسکن پر واپس آئے اور جوق درجوق و گروہ درگروہ مردمان مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ اور مولوی صاحب کے پاس جاتے تھے اور بیان کرتے تھے۔
۱… مرزا صاحب ہر ایک ملت اور مذہب کے انسان سے اس کی تمنا اور مرضی کے موافق گفتگو کرتے ہیں۔
۲… اہل بدعت سے اس کی منشاء اور مرضی کے موافق باتیں کرکے اس کو خوش کرتے ہیں۔ اہل سنت سے اس کی طبیعت اور خواہش کے موافق گفتگو کرتے ہیں۔ طرفہ معجون مرکب ہیں۔
مولوی صاحب نے کسی کو بہ لطائف الحیل اور کسی کو سکوت سے جواب دیا کہ کسی کو کہا صوفیوں کا یہی مشرب ہوتا ہے:
حافظ اگر وصل خواہی صلح کن با خاص و عام
با مسلمان اللہ اللہ باہنودان رام رام
شہر کے گلی کوچہ میں کیا گھر گھر مشہور اور زبان زد خاص و عام ہوگئے کہ مرزا صاحب جلسہ عام میں وعظ فرمائیں گے۔ غول کے غول غٹ کے غٹ مرد مان مولوی صاحب کی مسجد کی طرف جاتے ہیں۔ ایک مجمع کثیر اور جم غفیر مسجد میں اکٹھا ہے۔ مرزا صاحب کا عنایت نامہ بدین مضمون آیا۔ کہ ’’مجھے آج صبح کی نماز میں خدا نے منع کیا ہے کہ میں کچھ بیان نہ کروں۔ مجھ کو اشارہ منع کا ہوا ہے۔‘‘
مولوی صاحب اور تمام مشتاقان فیض اور استفادہ کو صدمہ ہوا۔
مرزا صاحب کی دعوت مولوی صاحب کے مکان پر ہوئی۔ سامان دعوت کیا گیا مرزا صاحب شریک جلسہ دعوت ہوئے۔
مرزا صاحب کے کچھ انگریزی الہام کا ذکر شروع ہوا۔
مولوی صاحب… الہام کو بحق ملہم اس وجہ سے حجت سمجھا جاتا ہے کہ ملہم واسطہ کا محتاج نہیں ہوتا اور جب ایسی زبان میں الہام ہو جس کو ملہم نہ جانتا ہو۔ تو لامحالہ ایسی زبان سے مراد الٰہی سمجھے۔ نہیں ہے۔ محتاج کا واسطہ ہوگا۔ اس تقدیر پر ملہم اور غیر ملہم برابر ہو جائے گا۔ اور احتیاج واسطہ میں یہ