حاضرین… سبحان اللہ سبحان اللہ یہ سب فیضان صحبت حضرت اقدس ہے۔
۱… جو ہمارے حضور کے حاشیہ نشینوں کو حاصل ہوا ہے۔ وہ سلف سے آج تک کسی اولیاء اللہ کو نصیب نہیں ہوا۔
۲… اجی حضرت وہ قصہ کہانیاں ہیں۔ اور یہ چشم دیدہ واقعات ان سے ان کو کیا کچھ حرف نسبت۔
۳… بھائی اللہ کے دین کی باتیں ہیں واللہ ذوالفضل العظیم جس کو چاہے دے دیں۔ خدا کے دین کا موسیٰ سے کوئی پوچھو حال۔ کہ آگ لینے کو جائے پیغمبری مل جائے۔
۴… اجی ہمارے حضرت (مرزا صاحب) کی جوتیاں سیدھی کرنے سے بایزید بسطامی بن گئے۵… اس میں کیا شک ہے۔ ہر کہ شک آرد کافر گردو عیان راچہ جان اس عرصہ میں ایک شخص فوجی وردی زیب تن گئے کمر میں کرچ سنہری قبضہ، سینہ پر تمغہ لٹکائے ہوئے آئے۔ السلام علیکم۱؎
مرزا صاحب… وعلیکم السلام مزاج شریف۔
فوجی افسر… حضرت کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ اکثر احباب اور اتقیاء سے سن کر مجھ کو کمال اشتیاق قدم بوسی کا پیدا ہوا آخر جذبہ شوق یہاں تک بڑھا کہ کشان کشان لے ہی آیا۔
مرزا صاحب! آپ نے بڑی عنایت کی، آپ کا مشکور ہوں۔ یہ گھر آپ کا گھر ہے تشریف رکھیے۔
رواق منظر چشم آشیانہ تست
کرم نماد فردو آکہ خانہ خانہ تست
کوئی میرے لائق خدمت آپ کی تعریف۔
افسر… میں پہلے ایک رسالہ میں رسالدار بہادر تھا۔ اب پنشر ہوں اور شہر لاہور میں میری سکونت ہے۔ خدا کی عنایت سے سب کچھ کمایا۔ خدا کا دیا بہت روپیہ جمع ہے۔ مگر زمانہ کا کچھ اعتبار نہیں ہمیشہ کوئی رہا نہ رہے گا۔ بقا بجز خدا کے کسی کو نہیں۔ آخر ایک دن جانا اس قدر جائیداد اور نقد کو کون سنبھالے گا۔ کون مالک ہوگا۔ یہ غم سینہ میں ہر دم کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے بے اولاد کا رنج سوہان روح ہے۔ خیر میں مرد جہاں گردہوں۔ ادھر ادھر پھر کر غم غلط کر دیتا ہوں۔ اور ہو بھی جاتا ہے۔ مگر عورتوں کو یہ غم سخت جانکاہ ہے۔ میری بیوی کو اس کا سخت صدمہ ہے۔
مرزا صاحب… کیا آپ کو کوئی اولاد نہیں؟
رسالدار… عرض کیا تاکہ اس بڑا صدمہ ہے۔ اصل پوچھیے تو اپنی غرض یہاں تک لائی ہے۔ آپ