کے زہد و تقویٰ اور بزرگی کی لوگوں سے تعریف سنی تھی۔ اور آپ کی تصانیف اور اشتہارات بھی دیکھے کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں۔ اور اللہ کی بارگاہ میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اگر دن میں آپ خدا کو سو مرتبہ پکاریں۔ تو وہ آپ کو سو مرتبہ جواب دیتا ہے۔ اگر میرے حال زار پر رحم فرما کر دعا فرما دیں۔ تو گویا دوبارہ زندگی بخش دیں۔
مرزا صاحب… مذاقیہ لہجہ میں اگر آپ کے فرزند پیدا ہو جائے۔ تو کیا دلوائے گا۔
رسالہ دار… درم ناخریدہ غلام توام۔ تمام عمر غلامانہ اور خادمانہ خدمت بجا لائوں گا۔ بندہ ام تا زندہ ام کا مصداق رہوں گا۔
مرزا صاحب… سردار صاحب معاملہ صاف اچھا ہوتا ہے۔ ورنہ بعد کو بدمزگی ہو جاتی ہے۔ روپیہ کو مقراض المحبت کہتے ہیں۔
رسالہ دار… جو فرمائیں بدل و جان حاضر ہوں۔ اور بطبیب خاطر بسر و چشم منظور کروں گا۔
مرزا صاحب… نہیں یہ آپ کی رائے اور مرضی پر حصر ہے جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ ہم اپنا ایک سال خاص دعا کے واسطے آپ کی نذر کریں گے۔
رسالہ دار… پانچ سو روپیہ نذرانہ اور شکرانہ اس کے علاوہ بعد کو۔
مرزا صاحب… دل میں خوش ہو کر یہ رقم میری اور آپ کی دونوں کی حیثیت سے تھوڑی ہے۔ مگر خیر۔
رسالہ دار… نے خدمت گار کو آواز دی اور پانصد روپیہ نقد کی تھیلی مرزا صاحب کے آگے رکھ دی۔
اجنبی… سلام علیک
مرزا صاحب… و علیکم السلام مزاج شریف کہاں سے آنا ہوا کوئی کام۔
اجنبی… میں ریاست مالیر کوٹلہ کا ہوں۔ نواب ابراہیم اہل خانہ صاحب بہادر کے متعلقین کا بھیجا ہوا خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ جناب کو معلوم ہوگا۔ کہ نواب صاحب مرض دماغ میں بیمار ہیں۔ آپ کی تصانیف اور اشتہار میں جو دعا وی درج ہیں دیکھے گئے۔ تو نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کے خواستگار ہیں۔
مرزا صاحب… آپ جانتے ہیں مجھ کو اس قدر فرصت کہاں۔ کہ میں کسی کے واسطے دعا میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کروں۔ میری دعا عام آدمیوں کی دعا نہیں۔
اجنبی… پانچ سو روپیہ کی تھیلی آگے رکھ کر یہ آپ کی نذر ہیں۲؎۔
مرزا صاحب… خوش ہو کر اچھا میں دعا کروں گا۔ اور ایک وقت اپنا اس دعا کے واسطے بھی مقرر کروں گا۔ آپ اطمینان کریں۔ ضرور صحت پا جائیں گے۔