حاضرین سبحان اللہ صلی علی کیا مبارک خواب ہے۔
مرزا صاحب… الحمد اللہ و المنۃ یہ اس واہب بے منت کا احسان ہے ورنہ میں کہاں اور یہ نعمت غیر مترقبہ کہاں ؎
اے خدا قربان احسانت شوم
وہ چہ احسان است قربانت شوم
مصاحب… حضرت حضور کا مدارج قرب الٰہی ہیں۔ کوئی درجہ پڑھا ہے۔ قطب الاقطاب ہو گئے۔
خوشامدی… اجی قطب کیا بلکہ غوث الاعظم۔
مرزا صاحب… مراقبہ سے سر اٹھا کر اس وقت ہم کو الہام ہوا ہے۔ اور خبر دی گئی ہے کہ تو (مرزا صاحب) اس صدی کا مجدد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ الرحمن علم القران لتنذر قوماً ما انذر بی اباء ھم و لتستبتین سبیل المجرمین قل انی امرت و انا اول المسلمین یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھلایا۔ اور صحیح معنی تیرے پر کھول دیئے یہ اس لیے کہ توان لوگوں کو بد انجام سے دڑاوے جو بباعث پشت در پشت کی غفلت اور نا متنبہ کئے جانے کی غلطیوں میں پڑ گئے۔ اور تا اُن مجرموں کی راہ کھل جائے۔ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔ ان کو کہہ دے کہ میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں۔
کئی آوازیں حاضرین جلسہ سے آمنا و صدقنا اور یکے بعد دیگرے بیعت ہونے کو بڑھے۔ اب مرزا صاحب نے چودھویں صدی کے مجدد ہونے اور دعوت بیعت کا اشتہار شائع کر دیا۔ ہمیشہ دربار منعقد ہوتا ہے۔ اور لوگ بیعت کرتے ہیں اور خوابیں بیان ہوتی ہیں اور مرزا صاحب کے مناقب سنائے جاتے ہیں۔
۱… سبحان اللہ و بحمدہ دربار میں کیا رونق ہے۔ نور مجسم بلکہ نور علی نور
۲… مجھ کو ابتدائے عمر میں صوفیا کی خدمت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اور بڑے بڑے مشائخ اور اولیاء اللہ کا دربار دیکھا ہے۔ مگر توبہ توبہ یہ بات کہاں۔
۳… چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ وہ لوگ دنیا کے طالب ریأپرور دکانداری کا ڈہنگ جماتے ہیں۔ روزی کا دھندا کرنے کو عبادت کے پردہ میں مکر بناتے ہیں۔ خدا سے اور معرفت سے مہجور نہ قرآن کی سمجھے نہ سنت سے واقف ان کا بیان کیا ذکر ہے۔
۴… شیر قالین دگرو شیر نیستان دگراست: یہاں ہر دم خدا سے ہم کلامی جو زبان سے نکلتا ہے گویا وہ خدا کا کلام ہے۔