عاشق سے ہوتا ہے کہیں صبرو تحمل
تو کام وہ کہتا ہے جو آتا نہیں مجھ کو
خوشامدی… بندہ درگا تہجد کے بعد جو مصلی پر پڑا ہوا تو غافل ہو کر فوراً ایک صحرالق و دق میں داخل لیکن فردوس برین اس کے رو بروے دشت پر خار نظر آئے شرم کے مارے منہ نہ دکھائے۔ چاروں طرف سے گلاب اور کیوڑہ کی لپٹیں چلی آتی ہیں۔ دل کو فرحت دماغ کو طاقت پہنچاتی ہے۔
یکایک آسمان سے روشنی کے آثار نمودار ہوئے اوپر جو دیکھتا ہوں۔ ایک قندیل نیچے کو آتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا تیسرا چوتھا۔ پانچواں ہزار ہا قندیل جنگل کیا ایمن مین بے تکلف سوئی میں تاگاڈال لو۔ مکھی کی ایک ایک آنکھ گن لو۔
مگر مجھ پر سایہ کا کام کر گئی۔ بدن کا بند بندبید کی طرح کانپ گیا۔ اپنے سر و پا کا ہوش نہ رہا ایک ایک پائوں سو سو من کا ہو گیا۔ بھاگنے کو قدم اٹھاتا ہوں۔ ٹھو کر کھا کر گر ا تو بے ہوش۔ ہوش جو آتا ہے۔ ایک دربار لگا ہوا ہے۔ میرے ارد گرد آدمی ہیں۔ کوئی گلاب چھڑکتا ہے لخافہ سنگھاتا ہے۔
۱… تم کون ہو بھائی کیونکر آئے۔
میں… میں میں مجھ کو۔
۲… اسے کیا پوچھتے ہو حضور میں لے چلو کسی نے میری کمر پر ہاتھ رکھ کر خبردار ہوشیار ہو جائو۔ سینہ تک خشکی محسوس ہوئی۔ اور خوف کافور۔ مڑ کر دیکھتا ہوں ایک بزرگ نور مجسم ہے۔
میں… حضور کا اسم مبارک ای آمدنت باعث آبادی ما۔ ذکر تو بود زمزمہ شادی ما۔
بزرگ… ہمارا نام علی ابن ابی طالب۔ یہ رسول کریم کا دربار ہے۔
میں… مجھ کو قریب سے زیارت نصیب ہو سکتی ہے۔ اور حضرت علی کے ہاتھ چومنے کو بڑھا۔
بزرگ… تم کو ہم لے چلتے ہیں۔ تمہارے مرزا صاحب موجود ہیں۔ اور تم کو بلاتے ہیں۔ میرا بازو پکڑ کر مجلس میں لے گئے۔ ایک تخت مرصع پر حضرت رسالت مآب سرور کائنات رونق افروز ہیں۔ اور تخت کے برابر کرسی کے اوپر ہمارے مرزا صاحب متمکن اور ارد گرد صحابہ کرام اپنے درجہ پر بیٹھے ہیں اور اتنے میں صراحی شراباً طہورا آئی۔ تقسیم کا ارشاد ہے۔
حضرت مرزا صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ پہلے ان کو پلائو اور خوب پلائو
میں… گلاس ہاتھ میں لے کر بیک جرعہ پی گیا۔
کان میں آواز اللہ اکبر آئی آنکھ کھل گئی۔ وضو کر کے نماز پڑھی۔