ہے۔ کبھی سکھوں کو مقابلہ کے واسطے ڈانٹتے ہیں۔ کوئی گھر کوئی جگہ نہیں۔ کہ جس جگہ مرزا صاحب کا ذکر نہیں۔ ہر گلی کوچہ بازار میں مرزا صاحب ہی مرزا صاحب ہیں۔ کہیں مناظرہ کا تذکرہ، کہیں حمایت اسلام کا بیان، کہیں زہد و تقویٰ عبادت و ریاضت کا اظہار ہے۔ کوئی وقت مرزا صاحب کو دربار داری سے فراغت نہیں۔ یہ گیا وہ آیا۔ دس بیس کا ہر وقت جم گٹھا لگا رہتا ہے۔ مرزا صاحب کسی سے جواب کا بیان فرما رہے۔ اور کس کو الہام سنا رہے ہیں۔
مولوی محمد حسین صاحب و الٰہی بخش صاحب و بابو عبدالحق صاحب وغیرہ آپ کی مدح میں رطب اللسان ہیں۔ ان کی مدح سرائی سونے پر سہاگہ کا کام کر رہی ہے۔
ہروقت میلہ لگا رہتا ہے۔ آریوں کا سلسلہ نیا ہی نیا ہے اور آر یہ سماج تیار ہوتے ہیں۔ مسٹر عبداللہ آتھم پنشن لے چکے ہیں۔ لیڈر قوم کہلانے کے نام پر مٹے ہوئے ہیں۔ اور سکھوں کی طرف سے بھی کوئی نہ کوئی واعظ شام کو بازار میں آجاتا ہے۔ مرزا صاحب ہیں۔ کہ آج نراین سنگھ سے جا ڈٹے ہیں۔ کل کسی پادری سے جا ٹکرائے آج کسی آریہ سے منہ بھر ہو گئے کچھ دن یہ چرچا رہا وکیل اسلام کے نام سے نامزد ہو گئے۔ اور اشتہارات سلسلہ بھی جاری ہو گیا ہے۔ کہیں منشی اندر من مراد آبادی کو ڈانٹ بتلائے جاتے ہیں۔ کہیں فلاسفروں کو للکارتے ہیں۔ کبھی عیسائیوں کبھی دہریوں کو بلایا جاتا ہے کبھی کسی نیچری کو سمجھایا جاتا ہے۔ کہیں براہین احمدیہ کا اشتہار ہے کہیں سرمہ چشم آریہ کا مژدہ ۔
براہین احمدیہ کا اشتہار جاری کیا گیا کہ میں اسلام کا وکیل بن کر کل ادیان باطلہ کی صلاحیت کروں گا ہندو عیسائی۔ یہود۔ آریہ۔ سکھ وغیرہ وغیرہ پر اسلام کی حقیقت اور قرآن کے الہام الٰہی ثابت کرنے کے بارہ میں میں نے کتاب تصنیف کی ہے۔ اس کتاب میں سو دلائل عقلی جو قرآن سے نکالے گئے ہیں شائع کرنے ہیں۔ اور یہ کتاب سو جزو کی ہو گی۔ اور یہ ہو گا اور وہ ہوگا۔
پھر اس کے ساتھ یہ اشتہار بڑے جلی قلم سے لکھ کر لگا دیا۔ کہ مخالفین سے جو شخص اس کتاب کا جواب دے گا۔ اس کو دس ہزار روپیہ انعام دوں گا۔
یہ اشتہار کیا تھا۔گویا جادو کی پڑیا تھی۔ اور براہین احمدیہ کی پہلی جلد مکمل سبھی اشتہار ہے۔ اس اشتہار کے پڑھتے ہی مسلمان نہایت گرویدہ ہوئے۔
نہ تھا عشق از ویدار خیزد
لسباکین دولت از گفتار خیزد
کی مصداق نادیدہ اس کے عاشق زار اور مشتاق دیدار کیا والہ وشیداء ہو گئے۔