یہ تو اب امید نہیں کہ طاقت عود کرے۔ خیر جو اس کو منظور ہے وہ کرے مگر اس تکلیف سے تو نجات دے۔
بیٹا… آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ اللہ تعالیٰ شافی مطلق ہے۔ اس کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔
باپ… اچھا تم سفر سے آئے ہو گرمی کا موسم ہے۔ تھوڑی دیر جا کر آرام کر لو۔ بیٹا…بہت بہتر کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور ایک چوبارہ پر چڑھ کر آرام کیا۔ آنکھ لگ گئی۔ شام کو اُٹھ کر پھر باپ کی تیمار داری میں مصروف ہو گیا اگلے دن باپ نے وفات کی۔ رسوم کے موافق تجہیز و تکفین کر کے متوفی کی وصیت کے مطابق مسجد کے گوشہ میں دفن کیا گیا۔
اب مرزا صاحب کی لاہور کے قیام اور اشاعت اشتہارات سے شہرت ہو گئی ہے رجوعات بھی ہوتی ہے۔ ایک ہندو منشی روزنامچہ نویس جو روز مرہ کے الہام قلم بند کرے۔ نوکر رکھا گیا کہ مرزا صاحب کے الہامات کا تذکرہ کرے۔
ہر وقت صبح شام الہام کا ذکر ہے۔ کوئی دعا کے واسطے آتا ہے کوئی دوا کو لالہ شر م بت رائے اور ملاوا مل صاحب بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
مولوی محمد حسین صاحب اور منشی عبدالحق اور بابو الٰہی بخش صاحب فراہمی چندہ براہین۱؎ میں ساعی اور کوشاں۲؎ ہیں۔
مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم (ان کے والد) ان کے ارادوں سے حارج تھے۔ اب وہ روک ٹوک جاتی رہی ہے۔ اب کو ئی اخبار یا کوئی رسالہ نہیں جس کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی ملہم ربانی جلی قلم سے لکھا ہوا نظر نہ آتا ہو۔
براہین احمدیہ کا پہلا حصہ یعنی جلد اول جو اشتہار انعام دس ہزار بڑی پر کار قلم کا لکھا ہوا صفحہ میں چار سطر اور سطر میں چار لفظ چلو ۸۲ صفحہ کی ایک کتاب خریداراں کے پاس پہنچ گئی ہے۔
خریداران ہیں کہ شوق میں دیوانہ وار پھرتے ہیں۔ تقاضا ہو رہا ہے۔ کہ جلد یہ کتاب پوری ہو۔ اور ایک عالم اس کتاب کا مفتون و معتقد ہے۔
چاروں طرف سے منی آرڈر آ رہے ہیں۔ غرض کہ دس ہزار روپیہ برائن احمدیہ کے پیشگی قیمت کا مرزا صاحب کو وصول ہو چکا ہے۳؎ اور کتاب ندارد۔
جب بہت تقاضا ہوا۔ تو چار جلدیں تیار ہوئیں۔ اور ان چاروں میں ان تین سو دلائل