تہذیب کے ساتھ لوگ گرہ کترتے ہیں۔
مرزا صاحب… یہ لیجیے یہ کتاب کا اشتہار ہے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ تعریف کے پل باندھ دیے ہیں۔ آدم سے تا ایندم کوئی ایسی کتاب نہیں ہوئی۔ اور نہ آئندہ ممکن قلم توڑ دئے ہیں۔ اب فرمائیے اب اسی کے بعد کوئی کیا لکھ سکتا ہے۔ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے خدا سے بھی نہیں شرماتے۔
مولوی صاحب… حضرت ابھی کیا ہے۔ چند روز لاہور میں قیام رہا تو آپ واقف ہو جائیں گے۔ دنیا کمانے کے ڈھنگ ہیں تہذیب کا زمانہ ہے۔ تعلیم کی وجہ سے ہر شخص اپنے فطرتی جوش کی ترقی کر سکتا ہے نیک نے نیکی کی بد نے بدی کی۔
مرزا صاحب… ہنس کر یہ لیجیے یہ ایک نئے مضمون کا اشتہار ہے۔ ہم کو آلو خریدنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص آلو فروخت کرنا چاہے۔ پائو سیر آلو نمونہ کے اور نرخ ہمارے پاس بھیج دے۔ جس کے آلو سب سے بڑے ہوں گے نرخ کے مطابق خریدے جائیں گے۔
مولوی صاحب… دیکھا اس میں مشتہر نے کیا چالاکی کی ہے۔ ہزار ہا آدمی نمونہ بھیج دیں گے۔ ان کے پاس کئی من آلو جمع ہو جائیں گے۔ ایک سے خرید لیے تو کیا۔
مرزا صاحب… لوگوں کو خوب دور کی سوجھتی ہے۔
مولوی صاحب… آپ نے جو اشتہار براہین احمدیہ کا شائع کرایا ہے۔ کچھ درخواستیں خریداری کی آپ کے پاس آئیں۔
مرزا صاحب… ابھی تک کچھ نہیں (کیا آلوئوں سے بھی گر گئی) میرا ارادہ ہے کہ میں ایک اشتہار شائع کروں۔ کہ یہ کتاب ایسی لاجواب ہو گی۔ اگر کوئی شخص اس کا جواب لکھے گا۔ اس کو ہم دس ہزار روپیہ انعام دیں گے۔
مولوی صاحب… اگر آپ کے خیال میں وہ کتاب ایسی ہے۔ تو پھر یہ اشتہار کس دن کے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ کار امرو زر ابہ فردامگذار۔ اور دیگر اصحاب جلسہ کی طرف خطاب کر کے آپ صاحب بھی اس کار خیر میں سعی فرما دیں۔ اور امداد کریں۔ سب صاحبوں نے وعدہ کیا اور جلسہ برخاست ہوا۔
اب مرزا صاحب کا لاہور میں قیام ہے اور مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب کا ربط ضبط بڑھا ہوا ہے۔ اور منشی الٰہی بخش اکوٹنٹ اور بابو عبدالحق صاحب اور حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار وغیرہ وغیرہ معاونین ہیں عمائد شہر کی آمد رفت شروع ہو گئی ہے۔ مشورے ہوتے ہیں۔ تدبیریں کی جاتی ہیں۔ کبھی آریوں سے مباحثہ کی چھیڑ چھاڑ ہے کبھی عیسائیوں کو ھل من مبارز کی صدا سنائی جاتی