کے سلسلہ ملازمت کو ترک کیا ایک سال تو قانون یاد کرنے میں کھویا۔ اور عمر عزیز کو برباد کیا۔ نتیجہ یاس و حرمان کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ نہیں نہیں قانون تو میں نے ملازمت کے زمانہ ہی میں رخصت لے کر یاد کیا تھا۔ جب سے میں ملازمت سے علیحدہ ہوا کچھ دنوں والد صاحب مقدمات کی پیروی کے واسطے بھیجتے رہے پھر میں نے گوشہ تنہائی اختیار کیا نو ماہ تک چوبارہ سے سوائے حوائج ضروری کے قدم باہر نہ نکالا دن صوم اور رات صلوۃ سے گزاری اب ہفتہ عشرہ سے باہر نکلا ہوں۔ آپ کے ملنے کی طبیعت نہایت مشتاق تھی۔ مگر ہر ایک کام کے واسطے وقت مقرر ہے۔ آج اتفاق ہوا۔
مولوی صاحب… میں آپ کی عنایت کا نہایت کا مشکور ہوں۔ میری آنکھیں ہی آپ کو ڈھونڈتی تھیں۔ دل ملاقات کا خواستگار تھا۔ کئی مرتبہ ارادہ کیا قادیان جا کر آپ سے ملوں ۔ مگر ہر بار یہی خبر ملتی رہی۔ کہ آپ عرصہ سے معتکف ہیں۔ کسی سے ملتے نہیں اگر میں جاتا یا آپ کا ہرج ہوتا یا مجھ کو رنج و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا۔
مرزا صاحب… اب میرا ارادہ بھی قادیان کو چھوڑنے کا اور کسی شہر کے قیام کا ہے۔
مولوی صاحب… میری رائے میں بھی یہ امر مصلحت ہے۔ جب آپ کا ارادہ ہو مجھ کو اطلاع دینا اگر لاہور کا قیام پسند کرتے ہیں۔ تو میں آپ کی ہمت کو داد دیتا اور میرا قیام بھی لاہور ہی ہے۔ یہاں اتفاقاً آجاتا ہوں۔ ہاں مرزا صاحب وہ آپ کے یار عرب کہاں ہیں اس کے کمال کی بڑی تعریف سنی گئی ہے۔ ان کی ملاقات کا تو ہمیں بھی شوق رہا۔ سنا ہے جفر اور رمل میں کامل ہے۔
مرزا صاحب… ان کا مجھ کو پتہ نہیں لاہور ہی میں مجھ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ پھر پتہ نہیں لگا کہاں گئے۔ زندہ ہیں یا چل بسے۔
مولوی صاحب… چل بسے کون سی گاڑی لدی ہیں۔ دنیا ناپائیدار ہے۔ اس کا کیا اعتبار ہے۔ جو آیا دم تو دم ہے۔ اب شام ہو گئی رات کا کھانا مرزا صاحب نے مولوی صاحب کے مکان پر کھایا جس مسئلہ کے بحث کو آئے تھے۔ اس میں گفتگو ہوئی۔ مرزا صاحب کو بھی منظور نہ تھی فیصلہ ہو گیا۔
مرزا صاحب… میرا مدت سے ارادہ ایک کتاب جملہ مذاہب غیر اسلام کے رد میں لکھنے کا ہے۔
مولوی صاحب… درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست پھر دیر کیا ہے۔ آپ لکھیں اور ضرور لکھیں۔
مرزا صاحب… روپیہ کی اشد ضرورت ہے۔ بد ون روپیہ کے اشاعت دشوار
مولوی صاحب… خدا خود بیر سان ما است ارباب توکل را آپ کارروائی شروع کریں۔ اور