۲… سبحان اللہ و صلی علی کیا پڑھا ہے مگر یہ پنجابی دھگے (ڈھگے) کیا سمجھتے ہیں۔
شرمندہ شاہ شہدات ہے پانی
کیا ہی فیض ہے محروم رہا ہے پانی
گرے ہیں اشک چشم سے ثابت یہ ہوا
یعنی نظروں سے گر گیا ہے پانی
۳… ہائے مار ڈالا کیا مضمون ہے، کیا بندش ہے، مگر بھائی جی اس کا مذاق بھی اُن ہی کے واسطے پنجاب کے لوگ کیا جانیں۔
۴… حضرت سمجھو یا نہ سمجھو کوئی کم بخت ہی آنکھ ہو گی۔ جو آنسو سے ترنہ ہوئی ہو گی۔ یہ راگ راگنی سے بھی خوب واقف ہے یہاں کے تو مراسی بھی اتنا نہ جانتے ہوںگے۔
۵… میاں تم ہی … ہو یہ ایک ملک کی زبان اور روز مرہ ہے۔ اس کا لطف ان کو ہی آتا ہے۔ جو اہل زبان ہیں۔ وہی پڑھتے ہیں۔ اور وہی سمجھتے ہیں۔ اور وہی اس کا لطف اور حظ اُٹھاتے ہیں۔ سیالکوٹ کے بھی تو ایک دو آدمیوں نے پڑھا تھا۔ کیا خاک اڑائی:
کلاغی تگ کبک درگوش کرد
کہ رفتار خود را فراموش کرد
وہی مضمون وہی واقعہ مگر رونے کی جگہ ہنسی آتی ہے۔
۶… نہیں یار وہ جو پنجابی میں مرثیہ پڑھا تھا۔ اس میں درد تھا۔
۷… بھائی وہ تو ان کی زبان تھی۔ مگر جو اس پنجابی نے تحت لفظ پڑھا تھا۔ کس زور کا مرثیہ تھا۔ گلگو نہ شفق جو ملاحور صبح نے مگر اس کو ایسا بگاڑا کہ بس… شاعر کی روح قبر میں روتی ہو گی اور کہتی ہوگی:
صائب دو چیز می شکند قدر شعر را
تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس
غرض راستہ میں چہ میگوئیاں کرتے ایک محفل سے دوسری محفل میں پہنچے۔ یہاں کوئی امام بارگاہ تو تھا ہی نہیں۔ یہ محرم اور مجالس عزا ایک بہار کا میوہ تھا۔ مسجدوں کو آراستہ و پیراستہ کر کے دلہن تیار کیا تھا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ مسجد ہے۔ یا روضۂ رضوان مگر علموں پر جو کپڑا لپٹا ہے۔ اس میں پنجابی بھدا پن نہیں گیا۔ تعزیہ گو چار چار منزل کے بنائے ہیں۔ گنوار پن اس پر ہے۔ بارش کس طرح برستی ہے وہ لکھنو کی صنعت اور سادگی کہاں۔