تکلیف ہو گی۔ میں درختوں کے سایہ میں چلتا ہوں۔ کچھ رستہ اور طے کیا بہ خرابی بسیار داخل شہر ہوئے۔ اور گلیوں میں کھڑکھڑ کرتے ایک جگہ یکہ ٹھہرا فتح خان نے مرزا صاحب کو جوتی نکال کر دی۔
مرزا صاحب نے جوتا پہنا اور فتح خان کا سہارا لے کر یکہ سے ا ترے اُف پھونک دیا کمر پر ہاتھ رکھ کر السفر سقر لوکان میلا۔ بڑی تکلیف اٹھائی۔ دستک نہ دی دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہو کر۔ السلام و علیکم!
مولوی محمد حسین صاحب نشست میں کتاب کا ملاحظہ کر رہے تھے و علیکم السلام رحمۃ اللہ و برکاتہ غورتأمل کے بعد آئیے آئیے اور مصافحہ کو ہاتھ بڑھایا۔
مرزا صاحب… آپ نے مجھ کو پہچانا نہیں۔
مولوی صاحب… کھڑے ہو کر معانقہ کرتے ہوئے اوہو
بعد مدت کے ملا مجھ سے وہ دھو کہ دے کر
یاد ہے جب مجھے وہ شوخ سی صورت تیری با اللہ العظیم میں نے آپ کو آپ کی کلام سے پہلے بالکل نہیں پہچانا۔ میاں یہ جوانی اور مانجہا ڈھیلا عنفوان شباب میں پپری و صد عیب کے مصداق ہو گئے خوب مزاج شریف اور سب خیریت۔
مرزا صاحب… الحمد للہ آپ کا مزاج مصافحہ اور معانقہ کے بعد مرزا صاحب کو صدر کی جگہ بٹھایا۔ شربت کا گلاس کیوڑا پڑا ہوا سامنے آیا۔ مرزا صاحب نے غٹ غٹ پیا۔ چوغہ کوٹ اتارکر فتح خان کے حوالہ کیا تھا۔
مولوی صاحب… بڑے مرزا صاحب کے مزاج کی کیا کیفیت ہے۔
مرزا صاحب… خدا کا شکر ہے۔ خیرو عافیت ہے۔ وہی مزاج جبل گردو جبلی نہ گرد۔
مولوی صاحب… ہاں یاد آیا۔ آپ تو شیخ چلی ہو گئے ہیں۔ سنا کہ چوبارہ سے نیچے نہیںاترتے اور اوراد خوانی یا کتاب کے اوراق گردانی۔ بھائی صاحب مشغلہ تو اچھا ہے۔ خدا توفیق دے میں آپ کا حال سن کر بہت خوش ہوتا تھا اورخدا کا شکر کرتا تھا۔ ہم میں سے ایک شخص اس مذاق کا بھی ہے۔
مرزا صاحب… بے شک دنیا میں لذت ہیں تو دو ہیں۔ عبادت یا مجامعت کچھ تھوڑی لذت حکومت کی ہے۔ مگر مشفق عبادت کی لذت خدا کی نعمت اور عنائیت ہے۔ جس کو چاہے وہ توفیق دے۔ زہے طالع اور زہے محنت اس شخص کی جس کے حق میں یہ انعام ہو۔ میں نے جب سیالکوٹ