ہیں کہ مسجد کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ اب بتائیے مسجد چھوڑ دیں یا دین۔ چھوڑ دیں۔ آخر ایک کو جواب ہے۔
مرزا صاحب… اس تذکرہ کو چھوڑو۔ قضیہ زمیں برزمین۔ یہ فرمائو ٹھیریں گے کہاں۔
شیخ صاحب… مکان آپ کے واسطے خالی کیا گیا ہے۔ اس میں قیام فرما کر آرام فرمائیے۔ صبح کو منادی کرا دی جائے گی۔ کہ مناظرہ ہو گا۔ مناظرہ کے واسطے جگہ اور شرائط فریقین کی مرضی پر۔
مرزا صاحب… میرے خیال میں یہ مصلحت نہیں کہ اول ہی بساط مناظرہ قائم کر کے پیام دیا جائے۔ یوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اُن کا ہی مہمان ہوں کیونکہ میرے لنگوٹیے یار ہیں۔ ہم مکتب ہم نوالہ وہم پیالہ ہیں۔ اول ان کو دوستانہ طور سے سمجھایا جائے اگر مان لیں۔ فھوالمراد! ورنہ پھر مناظرہ کیا جائے۔
شیخ صاحب… بہتر جو آپ کا منشا ہو ہم کو تو اپنے مطلب سے مطلب ہے۔ گڑدئے سے مر جائے تو زہر کیوں دیں۔ مرزا صاحب… بات وہ کیجیے جس میں سانپ مرے اور لاٹھی نہ ٹوٹے سیخ و کباب دونوں رہ جائیں۔ میری ان کی لڑکپن کی ملاقات اور محبت ہے۔ اوّل اوّل ان سے مجادلانہ تقریر اور مخالفانہ مجلس آراستہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ مناظرہ میں بات کی پچ پڑ جاتی ہے۔ سخن پروری حق کو بالکل چھوڑ دیتی ہے۔
یکہ والہ… لو صاحب بٹالہ بھی آ گیا وہ مکانات بٹالہ کے دکھائی دیتے ہیں۔
فتح خاں… (ملازم مرزا صاحب) ہاں کوئی دو میل ہو گا یہاں سے۔
شیخ صاحب… اچھا تو اب میں رخصت ہوتا ہوں دوسرے راستہ سے شہر میں چلا جائوں گا۔
مرزا صاحب… کیوں یہ کیا۔ کیا ناراض ہو گئے؟
شیخ صاحب… نہیں حضرت اگر میں آپ کے ہمراہ گیا۔ تو شہرت ہو جائے گی کہ مرزا صاحب کو مناظرہ کے واسطے لائے ہیں۔ دوسرے راستہ جا کر جن صاحبوں کے مشورہ سے میں قادیان گیا تھا۔ آپ کے ارادہ سے ان کو مطلع کر دوں گا۔ کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
مرزا صاحب… خوب سوجھی۔ واللہ کیا سوجھی آخر کو قانون گو کو دور کی سوجھتی ہے۔
شیخ صاحب تو علیحدہ ہو گئے۔ مرزا صاحب نے آواز دی۔ کہ میاں فتح خان آئو تم بھی بیٹھ جائو۔
فتح خان… جی نہیں اب تو منزل قریب آ گئی ہے۔ گھوڑا تھکا ہوا ہے۔ اور حضور کو بھی گرمی کے سبب