یکہ والہ… حضرت جی سفر میں آرام تو ہوتا ہی نہیں ۔ تکلیف ہی ہوتی ہے۔ چلا ہی جاتا ہے آخر گھوڑا بھی جاندار جانور کچھ ریل تو نہیں۔ کچی سڑک دھوپ کی طپش گرمی کی شدت ہماری کیا حالت ہو رہی ہے۔ یہ بیچارہ بوجھ کھینچتا ہے۔ بزرگ وار… بھائی اب تو بوجھ بھی ہلکا ہو گیا۔ ہانکے چل۔ کیا تمام دن دھوپ میں ہی چلائے گا۔
یکہ والہ… دیکھئے ہانک تو رہا ہوں۔ شڑاب سانٹا جما کر ٹخ ٹخ گھوڑے نے پستک جڑی الٰہی خیر۔
شیخ صاحب… اب تو منزل طے کر چکے ہیں۔ وہ بٹالہ نظر آتا ہے۔ مرزا صاحب آج اس تکلیف کا سبب میں ہوا سخت شرمندہ ہوں۔
مرزا صاحب… (بزرگوار) نہیں صاحب یہ تکلیف تو مقرر ہو چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو امتحان کے واسطے ابتلاء میں ڈالا کرتا ہے۔ اس کا آپ کے اوپر کیا احسان تھا۔ دین کا کام ہے۔ اور اس عاجز نے تو اپنی زندگی اور جان اور مال کو اس کار کے واسطے وقف کر دیا ہے۔ اب میرا ارادہ یہ ہے کہ مخالف مذاہب والوں سے مناظرہ کر کے حقیقت اسلام کو ثابت کروں۔
شخص صاحب… حضرت دنیا میں نام رہ جاتا ہے۔ کوئی نیکی کے ساتھ چھوڑ جائے۔ کوئی بدی کے ساتھ آپ کا ارادہ نہایت مبارک ہے فی زماننا ذرائع اشاعت کافی و وافی ہیں۔ تصنیف و تالیف کے واسطے مطابع اور سفر کے واسطے ریل تھوڑے دنوں میں نزدیک و دور ملک و دیار شہر و احصار میں مشہور ہو جاتا ہے۔ اور شہرت ہی ہر ایک کار کی رونق اور گرم بازاری کا سبب ہے۔ ہماری یاد میں پنجاب میں فقط ایک کوہ نور اخبار تھا۔ اور اب کتنے ہو گئے۔ اور روز بروز ترقی ہے۔ اب دیکھئے نہ مولوی محمد حسین، مولوی بن کر آیا ہے۔ اپنا مذہب ہی نیا نکال لیا۔ کل ابھی بٹالہ میں اس کو کوئی نہ جانتا تھا۔ اب دلی لاہور۔ امرتسر پنجاب ہندوستان میں مولوی کر کے پکارا جاتا ہے۔
مرزا صاحب… مولوی محمد حسین ہمارا ہم مکتب ہے۔ ساتھ کھیلے، ساتھ پڑھے اب دہلی جا کر مولوی صاحب بن آئے۔ اب دیکھو گے اسی مسئلہ کو بحث میں جس کے واسطے ہو ان کو کیسا نیچا دیکھاتا ہوں۔
شیخ صاحب… دیکھئے صاحب ہماری تو آپ تک ہی دوڑ تھی۔ اور تھا ہی کون جس کو بلاتے سب بھائیوں نے کہا کہ بھائی مرزا صاحب کو لائو۔ وہی اس کو سیدھا کریں گے پس حضرت بندہ درگاہ تو یہ چاہتا ہی تھا۔ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس تکلیف شاقہ کا باعث ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ حضرت جی تمام محلہ کے آدمی تنگ ہیں۔ دو چار چیلہ چپڑے اور بنا لیے ہیں، نماز پڑھتے ہیں