اور بڑے بڑے اظہار کمالات ہوتے رہے۔ یہ سب صاحب اٹھ کر اپنے گھر کو چلے۔ خیمہ کے پیچھے ایک مختصر سا باغیچہ ہے۔ اس میں کڑہا چڑھے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں آدمی کھانا کھاتا ہے۔ بلا امتیاز ہندو مسلمان۔ عیسائی چوہڑا۔ چمار کسے باشددس آتے ہیں۔ بیس جاتے ہیں۔ تانتا لگا ہوا ہے۔
۱… ارے میاں میں قسم کھا کر کہتا ہوں میں اس فقیر کو خوب جانتا ہوں۔ اور اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ یہ فلاں موضع کا ماچھی ہے۔ اور فلاں بابو کے برتن مانجنے پر نوکر تھا میرے پاس اکثر یہ اس بابو کی چٹھی و پیام لایا کرتا تھا۔ یہ تو محض مکر اور فریب ہے۔کسی خاص کار کے واسطے یہ جال بچھایا گیا ہے۔ اس میں کوئی اسرار ضرور ہے۔
۲… دیکھو بد معاشوں نے لنگر بھی جاری کر دیا۔ تا کہ شہرت ہودے۔ اور لوگ کھانے کے لالچ سے یہاں آئیں۔ اور اس بات کا چرچا کریں۔
۳… کچھ ان کے پلہ سے خرچ تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ جس کا درد ہو۔ دیکھو لوگ کیسے اندھے ہیں۔ کہ برسوں یہ شخص مہنت بنا یہاں رہا ہے۔ اور اس کو سب جانتے ہیں مگر اندھے ہی ہوتے ہیں۔
پندرھویں دن مغرب کی جانب سے ابر سیاہ اُٹھا۔ اور زمانہ تیرہ و تار ہو گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنی شروع ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی بوندین پڑنے لگیں۔ تو لوگوں کی آنکھیں جو آسمان کو لگی ہوئی تھیں۔ شوق کی نظر سے دیکھنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں اس زور شور سے بارش ہوئی کہ تمام تختہ جل تھل گیا۔ خدا کی شان کبریائی ہے۔ کہ پلک مارنے کی دیر تھی۔ کہ جہاں نظر کام کر سکتی تھی۔ پانی کے تختہ کے سوا زمین نظر نہ آتی تھی۔ ندی کے پانی نے مہنت جی کے خیمہ و شامیانہ کی طنابیں اکھاڑ کر پھینک دیں۔ نہ خیمہ کا پتا ملا نہ چوب خیمہ کا۔ ستلج نزدیک تھا۔ پانی نے بہا دریا میں ڈال دیا مہنت جی کو لوگوں نے اٹھایا۔ باغیچہ میں جو لنگر خانہ کے ذخیرہ کا خیمہ تھا۔ لے جا کر بٹھایا تین رات اور دن وہ موسلا دھار مینہ پڑا کہ بس کرا دی مکانوں کا گرنا شروع ہوا اور اوہوں کی آواز چاروں طرف سے آنے لگی چوتھے روز مینہ بند ہوا۔ ابر کھلا سورج نے منہ دکھایا۔
نہر کے بابو اور شہر کے زندہ دل شوقین مزاج رئیس جو فقیر صاحب کے مشیر اور معاون تھے۔ انہوں نے ایک رئیس کا ہاتھی منگایا۔ اور مہنت جی کو اس پر سوار کیا:
باجا اور ڈھولک اور گھنٹہ اور ناقوس بجاتے اور بھجن گاتے آگے آگے ہوئے اور کئی طائفہ رقص کناں سواری کے ساتھ تھے۔