آئے۔ جائے ہم بھی آپ صاحبوں کی طرح ہیں۔ کوئی مدار المہام تو ہیں نہیں۔ ہاں مہنت صاحب کا منشا ہے۔ کہ یہاں ایک لنگر جاری کیا جائے۔ چونکہ یہ کار خیر ہے۔ اس کا سر انجام اور اہتمام اپنے ہاتھ لیا جائے۔
غرض ان صاحبوں نے بدقت تمام خیمہ کے اندر دخل پایا ایک سید فام مضبوط جوان شخص کو ایک لکڑی کی چوکی پرجس پر ایک کمبل کا آسن بچھا تھا۔ اس کے پاس پا انداز کے طور پر مرگ چھالا پڑا بیٹھا ہوا دیکھا اور گرد زمین پر آدمیوں کا ہجوم ہے جو کثرت کے سبب نظر کو بھی دخل پانے کی گنجائش نہیں کسی کے سر پر کسی کے کندہے پر ہاتھ رکھ پائوں پر یا زا نو پر قدم رکھتے گرتے پڑتے باریاب پہنچے۔ اور چھپتے چھپاتے شرمی شرماتے روپیہ یا کچھ کم وپیش نذرانہ پیش کیا۔ سلام کر کے ان ہی قدموں واپس اپنی جگہ پر آئے اور گفتگو ہونے لگی۔ ۱… یہ بڑے کامل فقیر ہیں کسی سے گفتگو یا بات چیت نہیں کرتے۔ نہ کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ پہلے یہ یہاں سے چار پانچ کوس کے فاصلہ پر رہتے تھے اب چھ سات دن سے یہاں آ کر بیٹھے ہیں اور یہ عہد کیا ہے۔ کہ جب تک بارش نہ ہو گی۔ اور ندی کا پانی مجھ کو یہاں سے بہا کر نہ اُٹھائے گا۔ تو اس جگہ سے نہیں اُٹھوں گا۔ اور نہ کھائوں گا نہ پیوں گا۔
کئی دن یہ دھوپ میں بے دانہ پانی بیٹھے رہے۔ جب لوگوں کو خبر ہوئی توسایہ کے واسطے خیمہ کھڑا کر دیا۔ اب سائیں صاحب نہ کچھ کھاتے ہیں۔ نہ پیتے ہیں۔ نہ کوئی بات کرتے ہیں۔ اس دن سے اسی طرح پیک چلہ بیٹھے ہیں۔
۲… اجی رات دن یہاں آدمیوں کا مجمع رہتا ہے۔ ہلتے تک بھی نہیں دیکھا۔ جس نشست سے بیٹھے ہیں۔ نہ لیٹے ہیں، نہ کھانا کھایا، نہ رفع حوائج ضروری کے واسطے اٹھنا، نہ رات کو سوتے ہیں، نہ لیٹتے ہیں نہ کھڑے ہوتے ہیں۔
۳… یہاں رات کو کوئی دیوا بتی یا لمپ وغیرہ روشن نہیں کیا جاتا۔ مگر روشنی اس سے بھی زیادہ رہتی ہے۔ تمام دنیا میں گرمی کے مارے لوگ جھلسے جاتے ہیں۔ پنکھا ہاتھ سے ایک دم کو نہیں چھوٹتا پھر سے کل نہیں پڑتی۔ مگر اس جگہ رات کو رضائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
۴… کیوں نہ ہو فقیروں میں بڑی قدرت ہے۔
مردان خدا خدا نہ باشند
لیکن زخدا جدا نبا شند