لالہ صاحب… نہیں مذاق کی بات نہیں جس خیال میں انسان ہوتا ہے۔ خواب دیکھتا ہے۔ اور اکثر خواب سچ بھی ہو جاتے ہیں۔ کئی دن ہوئے منشی جیشی رام صاحب کو خط گیا ہے۔ جو اب نہیں آیا۔ دروازہ کھٹکایا۔ اور چھٹی رسان اندر آیا۔ لالہ جی یہ آپ کی چٹھی ہے۔
لفافہ
لالہ بھیم سین صاحب وکیل سیالکوٹ
کھولا گیا تو ایک زرد رنگ کے کاغذ (یوہیو مین) لکھا ہوا تھا۔ (یعنی تم ہوئے) نہ نام کاتب نہ مکتوب الیہ اور نہ آگے جملہ کے کچھ عبارت جس سے معلوم ہو کیا ہوئے (یعنی پاس یا فیل) مگر یہ یقین کیا گیا۔ کہ یہ تحریر منشی جیشی رام صاحب کی ہے۔
حکیم صاحب… اجی آپ پاس ہو گئے۔ اس میں کوئی کلام نہیں۔ ہماری خواب کہتی ہے۔
لالہ صاحب… یوں اس دن خوب چندکا بڑانا بھی ایسا ہی واقع ہے جیسا آپ کا خواب۔ اس کے اگلے دن ان کے ایک دوست کا خط لالہ بھیم سین صاحب کے نام ایک سرخ رنگ کے کاغذ پر لکھا ہوا۔ ایک بڑے لمبی چوڑی مبارک مبارک مبارک کے بعد تم پاس ہو گئے اور کل کے گزٹ میں تمہارا نام درج ہو کر شائع ہو گا۔ خط پڑھ کر مبارک سلامت کا شور اُٹھا۔ حکیم صاحب… دیکھو ہماری خواب سچی ہوئی نا۔
لالہ صاحب… یوں تو خوب چند کی خواب آپ سے پہلے ہوئی تھی۔ وہ ایک رند مشرب۔
افسوس دنیا میں کیا ہٹ دھرمی اور نا قدر دانی ایسی رؤیا صادقہ جس کا فوری اثر ظاہر ہو گیا۔ ایک رند مشرب کے اضغاث الاحلام کے برابر کر دی۔ اس دیرینہ موانست اور قدیمی محبت کو بالائے طاق رکھدیا۔
من زیاراں چشم یاری داشتم
خود غلط بود آنچہ من پند اشتم
کم سے کم سیالکوٹ کے گلی کوچہ میں تو اس کا اشتہار اور سیالکوٹ کے خاص خاص کی زبان پر ذکر و اذکار ہوتا۔
ہفتہ کے گورنمنٹ گزٹ میں لالہ بھیم سین صاحب کا نام درج ہو کر شائع ہو گیا۔ اور سب ناکام رہے ہمارے ناول کے ہیرو حکیم صاحب بھی علیٰ ہذا القیاس۔