اور دور دور کے فاصلہ تک باہر ہوا ہے۔ اور بہت سے آدمی خیمہ کے اندر ہیں ہزاروں نہیں سینکڑوں کا جمگٹھا خیمہ سے باہر ہے ڈھولک بج رہی ہے ۔ بھجن گائے جاتے ہیں۔ ناقوس پھونکا جاتا ہے نہر کے محکمہ کے تقریباً کل اہل ہنود بابو موجود ہیں۔
شہر کی کھترانیاں عمدہ عمدہ لباس پہن کر اور زیوارت سے آراستہ ہو کر تھالی میں کچھ لیے دوپٹہ کے آنچل سے ڈھکے ہاتھ پر رکھے آ رہی ہیں۔
خیمہ کے اندر نوبت بہ نوبت باریاب ہوتی ہیں۔ اور مہنت جی کو متھا (ماتھا) ٹیک اور چرن لسکار کر واپس آتے ہیں۔
یار لوگ لطف نظارہ اٹھا آنکھ نکھ سنک کر خوش گپیاں اڑا رہے ہیں۔ کل جہاں ایک ریتی کے ڈھیر اور جلتے ہوئے سنگریزوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ آج جنگل میں منگل ہو رہا ہے۔ چہل پہل ہنسی مذاق خوش طبعیاں ہوتی ہیں۔ عمدہ میلہ کا ہجوم ہے۔ دس جاتے ہیں بیس آتے ہیں۔
۱… بھائی یہ مہنت جی کہاں سے آئے ہیں۔ اور کس پنتھ کے ہیں۔ اور یہاں بیٹھے کیا غرض ہے۔
۲… ارے میان کوئی بدمعاش ہو گا۔ کسی عورت کی خاطر یہ پکھنڈ پھیلایا ہے ہم نے ایسے جوگی بہت دیکھے ہیں۔ یہ ہنود کی قوم عجیب ضعیف الاعتقاد ہے۔ جہان ذرا کسی کو سنا فقیر ہے لگے۔ ڈونہ چڑاھنے اور جب کسی عورت کو لے کر بھاگ گیا تو معلوم ہوا کہ مہنت جی اس مقصد سے یہاں بیٹھے تھے۔
۳… ہندو کی قوم پر ہی کیا منحصر ہے۔ پنجاب کے عموماً اور ممالک متحدہ کے خاص خاص مسلمان بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ پیر پرستی کو دارین کا دریعہ نجات اور موجب خیروبرکات سمجھتے ہیں۔
۴… اس ملک کی بھیڑ چال ہے کہ جس طرف چار آدمیوں کو جاتے دیکھا اسی طرف کو ہوئے پر سال کا تو واقعہ ہے۔ دو چار سال تو نہیں گزرے۔ رام سنگھ تکھان نے کو کون کا پنتھ چلایا تھوڑے دنوں میں کئی لاکھ آدمی کی جمعیت ہو گئی۔ یہاں تک کہ گورنمنٹ کو دست اندازی کی ضرورت پڑی۔ اور اس کو جلا وطن کیا۔
۵… ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مسلمانوں میں بھی بزرگوں کی قبروں کی پرستش اور زندہ پیروں کا عقیدہ کچھ اس سے کم نہیں ہے۔ عام کا ذکر نہیں۔ جو عالم فاضل کہلاتے ہیں۔ وہ پیر کو خدا سے کم نہیں جانتے سینکڑوں موضوع حدیثیں اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو دلیل لاتے ہیں مصرع
تسلی داد ہر یک رابریکے… خدا کے کارخانہ میں کسی کو دخل نہیں۔ ہر ایک شخص اپنی اپنی