صاحب…تمہاری رخصت کے انتظام میں جو لوگ قائم مقام ہیں۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ ہم کو مستقل کیا جائے یا ہماری اصلی جگہ پر واپس کیا جائے اب تم یا تو استعفیٰ دے دو یا اپنی جگہ پر واپس آئو۔
مین… اپنی جگہ پر واپس آجائوں گا۔ استعفیٰ دینا نہیں چاہتا۔
صاحب…اب تم کو کیا آمدنی ہوتی ہے اور تمہاری اصلی عہدہ کی کیا تنخواہ تھی۔
مین… اب مجھ کو سو روپیہ ماہواری اوسط پڑتی ہے۔ اور عہدہ کی تنخواہ بند ہے۔
صاحب…تو اس صورت میں تمہارا بڑا نقصان ہے۔ پھر استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے واپس آنے میں تمہارا کیا فائدہ ہے۔
مین… وکالت میں امتحان کی شرط ہے۔ اگر میں امتحان میں (جو اختیاری امر نہیں)
ناکام رہا تو اپنے عہدہ پر واپس آسکتا ہوں۔ بصورت استعفیٰ دینے کے، نہ ادھر کار ہوں گا نہ ادھر کا۔صاحب…(کچھ سوچ کر تأمل کے بعد) اچھا کوئی تدبیر سوچو جس میں تمہارا نقصان نہ ہو ہم کو کل جواب دو اس میں میں نے ایک تدبیر سوچی ہے۔ میری رخصت کے انتظام کے اخیر سلسلہ میں علی حسن۴؎ ہے اگر میں اپنے عہدہ پر واپس گیا تو علی حسن برخاست ہو جائے گا۔
حکیم صاحب… بھلا پھر اس میں میری ترقی اور سپریڈنٹ اور ڈپٹی سپریڈنٹ کی ماتحتی سے کیونکر نجات ہوگی۔
رائے صاحب… میں کل میر عصمت اللہ سے صبح ہی ملوں گا۔ اور کہوں گا۔ اگر میں اپنی جگہ واپس آگیا اور ضرور آئوں گا۔ تو آپ کا بھی نقصان ہے۔ کہ آپ کا رشتہ دار برخاست ہو جائے گا۔ اور میرا بھی نقصان ہے۔ یہاں (مجھے وکالت میں) ایک معقول آمد ہو جاتی ہے۔ اور وہاں پر جانا پڑے گا۔ تو وہ مجھ سے اس کی انسداد کی تدبیر پوچھیں گے۔ تو آپ کا نام لے کر یہ تدبیر بتائوں گا۔ کہ ان کو (یعنی آپ کو) میری جگہ مقرر کر دیا جاوے۔ اور علی حسن کو آپ کی جگہ مقرر کردیں۔ اور جو لوگ اب قائم مقام ہیں۔ ان کو اپنے اصلی عہدہ پر واپس بھیج دیا جائے۔ اس تجویز کو وہ خواہ مخواہ منظور کریں گے۔ تو یہ تجویز صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے عرض کروں گا۔ اور داروغہ صاحب (یعنی میر عصمت اللہ صاحب) اس کی تائید کریں گے۔ تو غالباً کیا، قطعی امید ہے۔ کہ اس تجویز کو منظور کرلیں۔ اور ضرور ہی منظور کریں گے۔ کیونکہ اول تو ان کو میرا نقصان بھی منظور نہیں ہے۔ دوسرے وہ داروغہ صاحب کی بہت خاطر کرتے ہیں اور غیر کے واسطے جس کار کی سفارش کر تے ہیں۔ تو انکار نہیں ہوتا اور یہ تو ان کا ذاتی کام ہے۔
حکیم صاحب… تجویز تو عمدہ ہے خوب سوچی ہے: ’’چہ خوش بودگر برآید بیک کرشمہ دوکار‘‘ اگر درست