اگر یہ بات بھی آپ کے ارادہ کے مطابق پوری ہو جاتی اور یہ کار خانہ جاری ہو جاتا تو کیا پھر بھی آپ کو نوکری کی ضرورت ہوتی؟
حکیم صاحب… ہاں پھر بھی ہمیں نوکری کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ مذہبی کتابیں خصوص
مناظرہ کی خوب فروخت ہوتی ہیں۔ اور خاطر خواہ قیمت وصول ہوتی ہے۔ اگر یہ تدبیر درست آ جاتی تو بھی نوکری یا وکالت کی ضرورت کیا تھی۔ چین سے گزرتی۔ دیکھو سر سید بالقابہ اور گنہیا لعل، الکھ دہاری، پنڈت دیانند سر ستی نے تصانیف کے ذریعہ سے کیا عروج حاصل کیا اور کس مرتبہ کو پہنچے۔ یہاں تک کہ رفار مرقوم جس کو نبی اور مرسل بھی کہہ سکتے ہیں۔ بن گئے یہ خیال تو اب بھی اگر کرسی نشین ہو گیا۔ تو دیکھو گے کیا ہوتا ہے۔ یار زندہ اور صحبت باقی۔ ان میں اول روپیہ کی ضرورت ہے۔ کہ زر زرکشددر جہان گنج گنج۔ مشہور مقولہ ہے۔
رائے صاحب… فالحمد للہ یہ بات تو ثابت ہو گئی۔ کہ انسان کا کوئی ارادہ اس کی مرضی کے موافق نہیں ہوتا جب تک کہ مشیت ایزدی اور تائید ربی نہ ہو۔ اور اس کا وقت نہ آئے۔
حکیم صاحب… یہ تقریر جو آپ نے فرمائی تسلیم کرتا ہوں۔ اور آپ کی ہمدردی کا مشکور ہوں مگر میرا ارادہ مصمّم ہو گیا ہے کہ وکالت کا امتحان دوں۔ اگر اس میں کامیابی ہوئی۔ تو فہو اعداد ور نہ اور تدبیر کریں گے۔ نوکری کو تو اب استعفا دیتا ہوں۔
رائے صاحب… پھر وہی بھائی صاحب زمانہ کی رفتار اختیار کرنی چاہیے ۔زمانہ تو نسازد تو باز ما نہ بساز۔ قانون میرے ساتھ یاد کرو۔ جب امتحان پاس ہو جائے استعفا دینا اختیاری امر ہے دے دینا پھر نوکری کی ضرورت ہی کیاہے۔
حکیم صاحب… امتحان میں کتابیں کیا کیا ہیں۔
رائے صاحب… میں صبح کو فہرست لکھ کر دیدوں گا۔ جو جو کتاب آپ مصلحت سمجھیں۔ مطبع سے منگوا لینا۔ باقی میرے پاس بھی کتابیں موجود ہیں۔ کل سے ہم باہم مل کر قانون یاد کیا کریں گے۔
حکیم… یہ تو سب کچھ ہو گیا۔ مگر اس روز کی تو تو میں میں کا کیا علاج ہے۔
رائے صاحب… میں نے اس کی تدبیر بھی سوچ لی ہے۔ اس کا بندوبست بھی میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ آپ یہاں صرف پندرہ روپے پاتے ہیں۔ اس تدبیر میں آپ کی پندرہ کی ترقی بھی ہو جائے گی۳؎ اور ان کی (سرشتہ داروں کی) ماتحتی سے نکل جائو گے۔ یوں تو ایک طرح سے تمام ملازم ضلع سپرٹنڈنٹ ضلع کے تحت حکومت ہیں۔ مگر کام کا تعلق ان سے بھی براہ راست نہ رہے گا۔ اور وہ یہ کہ آج مجھ کو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بلایا تھا یہ گفتگو ہوئی۔