لیاقت، نہ آسائش، نہ مفاد۔ اگر افسر خوش ہیں۔ تو یہ سب باتیں میسر۔ ملازمت میں افسر کی اطاعت اکسیر اور خود پسندی سم قاتل کا حکم رکھتی ہے۔ آخر افسر افسر اور ماتحت ماتحت۔
حکیم صاحب… یہی ہم سے نہیں ہو سکتا۔
رائے صاحب… یہ تو میں جانتا ہوں کہ مادہ آ پ کی فطرت میں نہیں ہے۔ یہ بات اگر نہ ہوتی۔ تو آپ گھر سے نکل کر یہ پندرہ روپے کی نوکری کیوں کرتے۔ خدا کا فضل تھا وہاں کس بات کی کمی تھی۔ مگر یہ آپ کی غلطی ہے بلکہ خام خیالی۔ بغیر خوشامد اور اطاعت کے کوئی کام بھی نہیں چلتا۔ جب دس آپ کی خوشامد کریں۔ تو ایک دو کی خوشامد میں آ پ کا کیا ہرج ہے اور پھر خدانخواستہ وہ آپ سے کیا کسی سے بھی بے جا خوشامد اور ناجائز اطاعت نہیں چاہتے۔ ایسے نیک افسر تو تقدیر سے ملتے ہیں۔
حکیم صاحب… بگڑ کر اور غصہ کو خلاف عادت ضبط کر کے ۔ نہیں صاحب یہ رعایت کی بات ہے۔ یہ امر تو ہم سے بعید بلکہ دشوار نہیں ناممکن۔
رائے صاحب… یہ تو میں جانتا ہوں کہ ضد آپ کی ارث ہے یا یوں کہ آبائی سنت، بڈھے حکیم صاحب بھی پیسہ کی جگہ روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ مگر ہٹ نہیں چھوڑتے تمام جائداد ضداً مقدمہ بازی میں برباد کر دی۔
حکیم صاحب… آشفتہ ہو کر وہ آدمی ہی کیا ہے۔ جس میں بات کی بچ نہ ہو:
رائے صاحب… شرافت اور کمینہ کا آپ نے معیار خوب نکالا۔ گویا ہٹ جزء شرافت ہے۔ کیا شیخ کا قول آپ نے نہیں سنا ؎
نہ ہر جائے مرکب تواں تاختن
کہ چاہا پھر باید انداختن
بھلا عقل سلیم اس کی مقتضی ہے؟ کہ دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر نوکری کر لی اور ضلع کے سرشتہ داروں سے مخالفت انجام اس کا:
حکیم صاحب… اسی واسطے تو میں نوکری کرنی نہیں چاہتا۔ وکالت کا امتحان دینے کا ارادہ ہے۔ رائے صاحب… آپ سے یہ بھی نہیں ہو گا۔ ایں خیال است و محال است وجنون۔ اوّل تو وکالت کا امتحان پاس کرنا کیا خالہ جی کا گھر ہے۔ مر مر کی سنگ فلاخن کا کاٹنا، لوہے کے چنے چبانا ہے۔ پھر امتحان (خدا جانے وہ کیا پوچھے زباں میری سے کیا نکلے) کا نام برا، اور اس میں کیا