جوان… میں نے تو یہ کہنا تھا کہ آپ کو پڑھا سکتا ہوں۔ مگر صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ سوچ کر بات کا پہلو بدل گیا۔ میاں کی املا تک درست نہیں اور ہم پر اعتراض۔
بت کریں آرزو خدائی کی
شان ہے تیری کبریائی کی
زینہ سے آہٹ کسی کے اترنے کی محسوس کر کے لالہ بھیم سین صاحب آئے۔
سب تعظیماً کھڑے ہو کر آئیے آئیے رائے صاحب تسلیم عرض۔
رائے صاحب… بندگی کہیے۔ صاحبوں کے مزاج شریف حکیم صاحب (جوان سے) آپ کے چہرے سے کچھ ملال پیدا ہے۔ راستہ میں جو آپ ملے تھے۔ آپ کی شکل سے پریشانی برستی تھی۔ آپ جانتے ہیں ۔ مجھ کو ان دنوں میں امتحان کی وجہ سے قانون یاد کرنے کے لیے رات ہی کا وقت ملتا ہے۔ دن تو مؤکلوں کے ساتھ جھک جھک بک بک میں گزر جاتا ہے۔ میں نے کہا امتحان میں تو ابھی بہت دن ہیں۔ اپنے دوست قدیم کی پریشانی کا سبب حیرانی کا باعث تو دریافت کروں۔ یہ جھگڑا تو روز چلا ہی جائے گا۔ عدیم الفرصتی ہے ورنہ ایک مکان میں رہ کر کئی کئی دن صورت آشنا نہ ہوں۔
حکیم صاحب… (جوان) یہ تو آپ کو معلوم ہے۔ کہ میں اس نوکری سے ابتدا ہی سے بیزار ہوں۔
رائے صاحب… یہ امر تو محتاج بیان نہیں میرا آپ کا مکتب کے زمانہ سے اتحاد ہے۔ جب ہم بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے۔ میں تو آج کی پریشانی کا سبب پوچھتا ہوں۔
حکیم صاحب… پانچ چھ سال سے یہاں نوکر ہوں۔ ہنوز روز اول اس قلیل تنخواہ میں بسر اوقات محال اور آئندہ ترقی کا لاطائل خیال افسروں کی نازبر داری مستزاد اس سے ناک میں دم ہےرائے صاحب… آخر اس کی خبر بھی نکلے گی یا یوں ہی جملہ معترضہ چلاجائے گا۔
حکیم صاحب… آپ سے عرض کیا نا۔
رائے صاحب… لاحول و لا قوۃ مجھ سے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ آخر اتنے دن نوکری کرتے ہی تھے۔ آج کیا بلی نے چھینک دیا۔
میر صاحب… اجی آج ان کی پنڈت صاحب سے جوڑ ہو گئی۔
رائے صاحب… خو ب یوں کہو نہ، مگر یہ بات بھی کچھ نئی نہیں اس کا اتنا چکر کیوں دیتے تھے۔ ہمارے حکیم صاحب گرو بننا چاہتے ہیں۔ چیلہ بننا نہیں چاہتے اور یہ نہیں جانتے کہ چیلہ بنے بغیر گرو کیونکر بن سکتے ہیں۔ بھائی صاحب نوکری میں بے افسر کی خوشنودی کے نہ ترقی، نہ عزت، نہ