نوکری میں فائدہ معلوم۔
جوان… میرا ارادہ ہے کہ قانون یاد کروں اور وکالت کا امتحان دوں۔ وکالت میں معقول آمدنی ہے اور آزادی ہے اور عزت بھی، ملازمت میں فرمانبرداری اور خوشامد بری بلا ہے۔ اگر امتحان پاس ہو گیا تو پوبارہ ہیں۔
عرب… اللہ تعالیٰ کامیاب کرے یہ بات ہم کو بھی پسند آئی۔ نوکری میں ترقی کرنے کا مادہ آپ کی فطرت میں نہیں۔ انسان کے پائوں کی چاپ معلوم ہوئی۔
جوان… دروازہ کی طرف دیکھ کر ہیرا (آنے والے کانام) لالہ کھانے سے فارغ ہو گئے:
ہیرا… نہیں تو جی مجھے تمہارے کنے بھیجا ہے۔ کہ کہیں چلے نہ جانا۔ ہم کھانا کھا کر آتے ہیں۔ ابھی رسوئی میں گئے ہیں۔
آواز… السلام علیکم!
جوان… و علیکم السلام ،میر صاحب آج تو کئی دن بعد نظر آئے کہاں تھے۔
میر صاحب… آپ ہی نہیں ملتے کچہری سے آئے اور سیدھے ملک۲؎ شاہ کے پاس وارد۔ لوگ آتے ہیں اور لوٹ جاتے ہیں کہو آج پنڈت صاحب (سر شتہ دار ضلع) سے کیا جوڑ ہو رہی تھی۔ جوان… عجب آدمی ہے۔ کیا کہوں بڑا ہی متعصب، مسلمانوں کو دیکھ ہی نہیں سکتا اور خصوص مجھ پر تو روکھا ہی نہیں کھاتا۔ سوم بد ذات کشمیری پنڈت۔ یہ کشمیری پنڈت اپنی قوم کو چاہتے ہیں اور کوئی نہ ہو۔
میر صاحب… آخر بات کیا تھی صاحب ڈپٹی کمشنر نے تو منہ پھیر لیا تھا اور مسکرا تے تھے۔
جوان… صاحب تو میری لیاقت سے واقف ہیں۔ اس دن جو یہ (عرب) پیش ہوئے تو ضلع میں سے کوئی بھی ان کی بات نہ سمجھ سکا اور نہ سمجھا سکا اور پھر بندہ درگاہ ہی ترجمان ہوا۔ جب سے صاحب ڈپٹی کمشنر کے خیال میری طرف سے اچھے ہیں۔ یہ شیطان جب مجھ پر کوئی اعتراض کرتے ہیں۔ تو صاحب کے رو برو بلا کر کرتے ہیں۔ تا کہ میں جواب نہ دے سکوں اور آپ جانتے ہیں۔
میر صاحب… آخر آج کا واقعہ تو سنائو کیا تھا۔
جوان… مجھ سے فرماتے تھے کہ اتنے عرصہ میں تم کو روبکار اور پروانہ کی تمیز نہیں ہوئی میں نے کہا کہ افسری ما تحتی شیٔ دیگر ہے ضلع میں بھی آپ کسی کو میرے مقابلہ کے واسطے بلا لیجیے۔ یہ گویا میدان۔
میر صاحب… آخر وہ افسر ہیں اور ہم ماتحت: