یا رب تو کریمی و رسول تو کریم
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم
دیباچہ
ہر ایک زمانے کا دستور عام ہے کہ ملک کے مشہور مشہور لوگوں کے حالات مختلف پیرائیوں میں لکھے جایا کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کی شہرت کسی دینی پیشوائی یا ملکی خیر خواہی کی وجہ ہی سے ہو۔ مؤرخ کو اس سے مطلب نہیں وہ تو واقعات حقہ کے اظہار کا پابند ہوتا ہے۔ پنجاب میں مرزا قادیانی کو جو شہرت ہے۔ وہ مقتضی اس بات کی تھی کہ ان کے حالات سوانح عمری کو لکھے جاتے، مگر افسوس کہ ان کے مریدوںمیں کسی نے اس کام کو (جو بحیثیت ارادت ان کا فرض منصبی تھا اور مرزا صاحب کی زندگی میں آسان بھی تھا) نہیں کیا۔ اس لیے مصنف رسالہ ہذا کو واقعات کی تلاش میں جو دقت اور محنت برداشت کرنی پڑی وہ کس قدر حق سے زائد ہے، غالباً ان سے بعد جو لوگ اس کام کو کریں گے۔ یہ کتاب ان کو اس کام میں راہ نمائی کا کام دے گی۔
چونکہ زمانہ رواں میں انگریزی تعلیم کے اثر سے لوگوں میں ناول کا طرز پسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ اس لیے مصنف نے بھی یہی طریق اختیار کیا۔ اصل واقعات بالکل صحیح اور سچے ہیں:
منیجر
ز…ز…ز