جوان… اپنے خیال کا سلسلہ توڑ کر آ ہا،رائے صاحب تسلیم مزاج شریف:
رائے صاحب… بندگی آج اس وقت کیا آج کل کام کی کثرت ہے۔ ملنا بھی چھوڑ دیاہے۔ عید کا چاند کہیں یا د سہرہ کا نیل کنٹھ۔ ایک مکان میں رہنا اور یہ دوری۔
جوان… اپنی رفتار بدل کر تیز قدمی کے ساتھ۔ جی ہاں ماہواری ہے نا۔ دوسرے آج صاحب ڈپٹی کمشنر بھی دیر سے اٹھے۔ آپ بھی اب چلے ہیں۔ آزادی میں بھی۔ آپ تو کسی کے نوکر نہیں۔ بس جاتے ہی داخل دفتر ہو جائو گے۔ پھر الٹی شکایت:
رائے صاحب… ہاں ایک دیوانی مقدمہ میں بحث تھی اور ایک فوجداری مقدمہ سشن کا تھا۔ ڈپٹی صاحب تو ابھی بیٹھے ہیں رات کو ملیں گے۔ جوان… بہتر ڈپٹی صاحب (کچھ آگے کہنے کو تھا) فنس نکل گئی یہ جا وہ جا پتا ہو گئی اور یہ پھر اسی خیال اور دھن میں لگ گئے۔ شہر میں داخل ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اندر قدم رکھتے ہی نوکر سے۔پانی گرم ہے۔
نوکر… جی ہاں لیجیے۔
جوان… وضو کرتے ہوئے۔ عرب کہاں گئے۔
نوکر… مسجد میں نماز کے واسطے گئے ہیں۔ ابھی آ جاتے ہیں۔
جوان… نے وضو سے فراغت پانماز مغرب ادا کی۔ وظیفہ میں تھے۔ کہ دروازہ کھلا ایک شخص بزرگ صورت گول عمامہ سر پر ٹخنوں تک نیچا کرتہ اور عربوں کی وضع کی تسبیح ہاتھ میں ماتھے پر سجدہ کا گھٹہ پڑا داخل ہوئے۔ السلام و علیکم!
جوان… و علیکم السلام کہہ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ مصلیٰ اُٹھا کر ایک طرف رکھا۔
عرب… آج بہت دیر لگائی نماز بھی اخیر وقت پڑھی ہو گی:۔
جوان… بندگی پابندگی اسی سبب سے تو میں ملازمت کو پسند نہیں کرتا۔ نوکری میں آدمی تقسیم اوقات کا پابند نہیں رہ سکتا۔ خصوص ماتحتی طرفہ بلا ہے۔ چھ پانچ برس ہو گئے ہنوز روز اول ہے اور نہ آئندہ کوئی امید ترقی۔
عرب۱؎… ہم آپ کو ایک عمل بتلاتے ہیں۔ تھوڑے دنوں کے ورد میں خدا نے چاہا تو نوکری کی پرواہ نہ رہے گی۔
جوان… ورد وظائف کا مجھ کو لڑکپن سے شوق ہے اور ہمیشہ پڑھتا ہوں۔