اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اہل خانہ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ میدان میں جمع ہوں گے۔ پھر مل کر بڑی عاجزی سے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگیں گے کہ جو جھوٹا ہے اس پر اس کی لعنت ہو۔ مباہلہ کا قرآن کریم نے یہی طریقہ بیان کیا ہے۔ اگر آپ کے مرزاطاہر میں یہ ہمت نہ تھی تو انہوں نے مباہلہ کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ کہنے لگے پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ جو حق کے علمبردار ہوتے ہیں وہ جان کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر قیمت پر اور ہر حالت میں اپنی دعوت کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے آتش کدے سے ڈر کر دعوت توحید سے پہلو تہی کری تھی۔ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون جیسے جابر اور ستمگر کے سامنے کلمہ حق بلند نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ اس بات پر ہی بضد رہے کہ آپ اپنی جگہ بیٹھ کر بددعا کریں اور وہ اپنی جگہ بیٹھ کر بددعا کریں گے۔ ان کو باربار سمجھایا گیا کہ مباہلہ کا لفظ آپ کے مرزاطاہر قادیانی نے استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ استعمال کرنے سے پہلے انہیں چاہئے تھا کہ اس لفظ کا مفہوم سمجھتے اور اس مفہوم پر پورا اترنے کی انہیں ہمت نہ تھی یا خاموشی اختیار کرتے اور یا کوئی اور لفظ استعمال کرتے۔ لیکن بجز سکوت کے ان صاحبان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ چنانچہ کچھ وقت کے بعد وہ تشریف لے گئے۔
اتوار کے روز ظہر کی نماز کے بعد عظیم الشان جلسہ ہوا۔ جس میں اس فقیر نے تقریباً سوادوگھنٹے مرزائیت کے رد میں تقریر کی۔ جس سے مجھے یقین ہے کہ بفضلہ تعالیٰ حاضرین کو بہت فائدہ ہوا ہوگا اور ان میں وہ روایتی بے خبری ختم ہوگئی ہوگی۔ جس کے باعث قادیانی شاطر انہیں بآسانی اپنا صیدزبوں بنالیا کرتے تھے۔
۲۹؍اگست ۱۹۸۸ء کو ساڑھے گیارہ بجے کی فلائٹ پر میں فرینکفرٹ سے جدہ کے لئے روانہ ہوا۔ جہاز ساڑھے آٹھ بجے کے قریب جدہ کے ہوائی اڈا پر اترا۔ وہاں محترم حکیم نذیر احمد صاحب، محترم گل احمد خان صاحب کار لے کر تشریف لائے ہوئے تھے اور بھائی عزیزم حاجی مہر محمد صدیق صاحب بھی آئے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ رات گل احمد خان صاحب کے پاس بسر کی۔ نماز صبح کے بعد پرتکلف ناشتہ کا اہتمام فرمایا۔ وہاں سے میں اور عزیز محمد صدیق صاحب مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک عمرہ صدر شہید کی روح کو ایصال ثواب کے لئے کیا۔ منگل اور بدھ کے دو دن مکہ مکرمہ بسر ہوئے۔ بروز بدھ سواچھ بجے بذریعہ بس