درختوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ سڑکوں کے دونوں طرف بڑے بڑے درخت ہیں جو اپنے گھنے اور ٹھنڈے سائے سے مسافروں کو آرام اور سکون پہنچاتے ہیں۔
ہم مناظر قدرت کو دیکھتے ہوئے ان کے خوبصورت چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گزرتے ہوئے دو بجے کے قریب اپنی قیام گاہ پر پہنچے۔ نماز ظہر ادا کی۔ کھانا کھایا اور سستانے کے لئے لیٹ گئے۔ عصر کی نماز ساڑھے چھ بجے ادا کی اور قادیانیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ پونے سات بجے کے قریب پہلے دو آدمی آئے۔ کچھ دیر کے بعد دو آدمی پھر آئے۔ پھر کچھ وقفے کے بعد دو تین آدمی پھر آئے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد نودس کے لگ بھگ ہوگئی۔ انہیں اپنے پاس بلایا اور انہیں گفتگو کی دعوت دی۔ ان میں سے ایک صاحب کے ہاتھ میں چند پمفلٹ تھے۔ وہ انہوں نے میری طرف بڑھائے اور کہا یہ ہمارے امام نے مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔ کیا آپ اس کو قبول کرتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے آپ کا یہ چیلنج عرصہ ہوا قبول کرلیا ہے اور اس کا اعلان اخبارات کے فرنٹ پیج پر کر دیا گیا ہے۔ ہم نے اس کے لئے بارہ ربیع الاوّل کی رات متعین کی ہے اور آپ کے مرزاطاہر کو کہا ہے کہ وہ اس رات مینار پاکستان کے میدان میں تشریف لے آویں۔ وہ کہنے لگے کہ نہیں وہاں آنے کی ضرورت نہیں وہ اپنے گھر میں دعا کریں گے۔ آپ اپنے گھر میں دعا کریں میں نے کہا آپ نے چیلنج دیتے ہوئے مباہلہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ قرآنی اصطلاح ہے اور اس پر اسی طرح عمل کیا جائے گا۔ جس طرح آیت کریم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے اور اس کا طریق کار بتایا ہے۔
جب یمن کے علاقہ نجران کے عیسائیوں کے پادری مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور عقیدہ تثلیث پر رحمت دوعالمﷺ سے گفتگو کی اور حضورﷺ نے تثلیث کے بطلان اور عقیدۂ توحید کے اثبات کے لئے دلائل پیش کئے تو انہوں نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ اس وقت اﷲتعالیٰ نے مباہلہ کا حکم اپنے حبیبﷺ کو دیا اور اس آیت میں اس کی وضاحت فرمائی۔
’’فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنت اﷲ علی الکاذبین (آل عمران:۶۱)‘‘ {آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو بھی اور تمہارے بیٹوں کو بھی۔ اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی۔ اپنے آپ کو بھی اور تم کو بھی پھر بڑی عاجزی سے اﷲ کے حضور التجاء کریں۔ پھر بھیجیں اﷲتعالیٰ کی لعنت جھوٹوں پر۔}