مدینہ طیبہ کے لئے روانہ ہوا۔ رات کے بارہ بج کر چند منٹ ہوئے تھے کہ اس مقدس اور پاکیزہ بستی میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ جس کی گلی کی خاک کے ذرے اپنی چمک دمک میں مہر وماہ کو شرمادیتے ہیں۔
جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کی رات دیار حبیبﷺ میں بسر ہوئی۔ ان مقامات پر حاضری کی لذتیں اور کیف وسرورناقابل بیان ہے۔ اس کو وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو اس سے لطف اندوز ہونے کی سعادت ارزانی کی جاتی ہے۔ بھائی غلام رسول صاحب اپنی کا میں مجھے واپسی پر مکہ مکرمہ لے آئے۔ واپسی پر بھی عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ پھر آخری بار غلاف کعبہ کو بوسہ دے کر الوداع کیا اور جدہ کے لئے روانہ ہوا۔ ساڑھے آٹھ بجے پی۔آئی۔اے کی فلائٹ پر کراچی اور وہاں سے چھ بجے صبح اسلام آباد پہنچا۔
اپنے مکان پر پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ برن میں سفیر صاحب کو ٹیلیفون کیاتاکہ معلوم ہو کہ اس رائے شماری کا کیا نتیجہ نکلا۔ اتفاقاً فوراً رابطہ ہوگیا۔ انہیں جب پتہ چلا کہ ٹیلیفون پر میں ہوں تو بے ساختہ ان کی زبان سے مبارکباد، مبارکباد کے کلمے نکلے۔ انہوں نے بتایا کہ اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کو اس معرکہ میں شاندار کامیابی ہوئی ہے۔ یہ مژدۂ جانفزاء سن کر میں نے اپنے رب کریم کا شکر ادا کیا۔ جس نے اس ناچیز اور نااہل کو یہ خدمت سرانجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائی۔ ’’الحمد ﷲ رب اللعالمین۰ والصلوٰۃ والسلام علیٰ خاتم الانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین‘‘
اس خوشی کے باوجود دل میں ایک قلق تھا کہ کاش یہ خوشخبری میں اپنی زبان سے اس گرامی قدر ہستی کو سنا سکتا۔ جس نے اس عظیم خدمت کے لئے اس بندہ ناچیز کا انتخاب کیا تھا۔ میرے پاکستان واپس آنے سے پہلے ہی شہادت کا تاج پہن کر وہ اپنے رب کریم کی بارگاہ رحمت میں پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ میں ان کے مزار پر گیاجو عمرہ میں نے ان کے لئے کیا تھا اس کا ثواب ان کی پاک روح کو نذر کیا اور انہیں یہ بھی عرض کی کہ جس کام کے لئے آپ نے مجھے بھیجا تھا اﷲتعالیٰ نے پاکستان کو اس میں سرخروئی عطاء فرمائی ہے۔ یقینا ان کی روح نے یہ سنا ہوگا۔ یقینا انہیں بے پایاں مسرت ہوئی ہوگی۔
’’رحمۃ اﷲ علیہ وعلیٰ اخوانہ وعلیٰ جمیع المسلمین الیٰ یوم الدین‘‘